کیا 1990 میں اڈوانی کی رتھ یاترا کی فنڈنگ آئی ایس آئی نے کی تھی؟
1990 کی دہائی کے آخر میں انڈیا کے سب سے ممتاز نیوی افسروں میں ایڈمرل وشنو بھگوت، کا بڑا نام تھا، لیکن ان کا کیرئیر ایک متنازعہ موڑ پر پہنچ کر اچانک ختم ہو گیا۔ نہ صرف انہیں بحریہ کے سربراہ کے عہدے سے غیرمعمولی حالات میں برطرف کیا گیا، بلکہ انہوں نے انڈین سیاسی تاریخ کا ایک انتہائی شدید الزام بھی لگایا جسے بہت ہی کم رپورٹ کیا گیا تھا اور بعد میں یہ الزام دہرایا بھی نہیں گیا:
وہ الزام یہ تھا کہ مافیا ڈان داؤد ابراہیم نے ایل کے اڈوانی کی 1990 کی رتھ یاترا کو فنڈ کیا تھا، جو انڈیا میں ہندو قوم پرستی کی سیاست کے عروج میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ داؤد ابراہیم کو انڈیا میں پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کا اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔
الزام: رتھ یاترا اور داؤد ابراہیم
ایڈمرل بھگوت نے اپنی برطرفی کے بعد یہ الزام عوامی سطح پر لگایا کہ داؤد ابراہیم نے رتھ یاترا کو مالی مدد فراہم کی تھی، جس کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما ایل کے اڈوانی کر رہے تھے۔ یہ یاترا سومنات سے شروع ہوکر ایودھیا پر ختم ہوئی تھی اور اس کا مقصد متنازعہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے لیے حمایت اکٹھا کرنا تھا۔
بھگوت نے اشارہ دیا تھا کہ داؤد ابراہیم کی مالی مدد — جو اُس وقت بھی انڈیا میں آئی ایس آئی کا حمایت یافتہ ایک مطلوب مجرم تھا اور بعد میں عالمی دہشتگرد قرار دیا گیا — ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھی جس کا مقصد بھارت کو غیر مستحکم کرنا تھا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ بھارت میں فرقہ وارانہ کشیدگی نہ صرف سیاسی طور پر استعمال کی گئی، بلکہ ہو سکتا ہے کہ بیرونی اور جرائم پیشہ عناصر نے بھی اپنے مفادات کے لیے اس کشیدگی کو ہوا دی ہو یا آئی ایس آئی نے بھی اس میں معاون کردار ادا کیا ہو۔
اُن کے اس الزام کی کچھ تفصیلات انڈیا کے انگریزی روزنامے “ٹائمز آف انڈیا نے 26 مارچ 2001 میں شائع کی تھیں:
‘بھگوت کا حیران کن الزام ایک تقریر کے دوران سامنے آیا جو یہاں ’’قومی سلامتی اور اسلحہ کے سودوں‘‘ (national security and arms deals) پر ہوئی، جس کا اہتمام کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کیا تھا۔
اگرچہ سابق نیول چیف کا کہنا تھا کہ ان کے الزام کے پیچھے ثبوت موجود ہیں، لیکن انہوں نے کہا: “یہ وقت اور جگہ اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔”
انہوں نے کہا: “بہت جلد اس معاملے پر ایک اور شخص کی طرف سے دستاویزی ثبوت فراہم کیے جائیں گے۔ دراصل، مرکزی حکومت نے آئی ایس آئی (پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس) پر وائٹ پیپر جاری کرنے کا جو وعدہ کیا تھا، وہ اس لیے پورا نہیں کیا کیونکہ اس میں کچھ اشارے اس سمت میں جا رہے تھے۔”
ایڈمرل بھگوت نے یہ بھی کہا کہ “اڈوانی اور داؤد ابراہیم کے درمیان اس تعلق کا پردہ فاش ایک ’حکومت میں موجود شخص‘ کرے گا۔”
مزید تفصیل پوچھی گئی تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ “یہ سب آئندہ چند دنوں میں ہو جائے گا۔”
اس سے پہلے اپنی تقریر میں بھگوت نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سنگھ پریوار کی اتحادی تنظیموں پر الزام لگایا تھا کہ وہ ملک کو غیر مستحکم کرنے کا ایجنڈا چلا رہے ہیں، جس میں زراعت کی تباہی اور فوج کو فرقہ وارانہ بنانا شامل ہے۔’
ایسے شدید اور سنگین الزام کے باوجود، اس کی کوئی باقاعدہ تحقیقات نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ عوامی یا پارلیمانی بحث کا موضوع بنا۔ اس دعوے کے ساتھ کوئی دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، اور میڈیا—جو شاید بی جے پی کی حکومت کے سیاسی ماحول کی وجہ سے محتاط تھا— اس نے بھی اس الزام کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ یہ ایک حیرت انگیز الزام تھا لیکن اس کی تصدیق نہ ہو سکی۔
ایڈمرل بھگوت کا کیرئیر اور برطرفی
اس واقعے سے پہلے ایڈمرل بھگوت کا کیرئیر بہترین کارکردگی، تکنیکی مہارت اور فوجی پیشہ ورانہ اصولوں کی پابندی کے لیے جانا جاتا تھا۔ انہیں 1996 میں بحریہ کا سربراہ بنایا گیا تھا، لیکن جلد ہی ان کا اور حکومتی قیادت کے درمیان تناؤ بڑھنے لگا، خاص طور پر بحریہ کے اندر تقرریوں کے حوالے سے۔
دسمبر 1998 میں واجپائی کی قیادت والی حکومت نے انہیں عہدے سے ہٹانے کا غیرمعمولی فیصلہ کیا، اس سے پہلے انڈیا میں کسی چیف آف نیول سٹاف کو اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہٹایا نہیں گیا تھا۔ سرکاری طور پر ان پر نافرمانی (insubordination) کا الزام لگایا گیا—خاص طور پر انھوں نے وائس ایڈمرل ہرندر سنگھ کی ایک اہم تقرری کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ایڈمرل بھگوت کا کہنا تھا کہ ان کی برطرفی غیرآئینی تھی اور یہ فوجی خودمختاری میں سیاسی مداخلت کی ایک مثال تھی۔
رتھ یاترا کی فنڈنگ کا الزام کیوں دب گیا؟
کئی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ الزام زیادہ اہمیت حاصل نہ کر سکا:
1. دستاویزی ثبوت کی کمی – بھگوت نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دستاویز پیش نہیں کی۔
2. وقت اور تاثر – چونکہ یہ الزام برطرفی کے بعد لگایا گیا، اس لیے بہت سے لوگوں نے اسے سیاسی انتقام سمجھا۔
3. سیاسی ماحول – بی جے پی اقتدار میں تھی، اور عوامی گفتگو شدید طور پر تقسیم تھی۔ اڈوانی، جو اس وقت ایک اہم وزیر تھے، کے خلاف الزامات انتہائی حساس تھے۔
4. فوج کی غیرجانبداری – انڈین فوج روایتی طور پر سیاست سے دور رہتی ہے۔ بھگوت کا برطرفی کے بعد سیاسی تبصرہ کرنا بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف دہ تھا، جس کی وجہ سے اس پر ردعمل دینے سے گریز کیا گیا۔
اہم شخصیات کا کیا ہوا؟
– ایڈمرل وشنو بھگوت حکومتی پالیسیوں، فرقہ واریت اور فوج کے سیاست کرنے کے خلاف ایک سرگرم آواز بن گئے۔ انہیں دوبارہ فوج میں شامل نہیں کیا گیا، لیکن وہ عوامی مباحثوں میں شامل رہے، خاص طور پر سیکولر یا لیفٹ ونگ حلقوں کے ساتھ ان کے روابط گہرے ہو گئے۔
– ایل کے اڈوانی انڈین سیاست میں اہم رہے۔ وہ وزیر داخلہ اور بعد میں نائب وزیراعظم بھی بنے۔ اگرچہ بابری مسجد تحریک میں ان کا کردار متنازعہ رہا، لیکن وہ بی جے پی کے اہم رہنما رہے، یہاں تک کہ 2013 کے بعد نریندر مودی کے عروج کے ساتھ ان کا اثر کم ہوگیا اور وہ وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں مودی سے شکست کھا گئے۔
– داؤد ابراہیم انڈیا کے سب سے زیادہ مطلوب مجرم بن گئے، جن پر 1993 کے بمبئی بم دھماکوں کا بھی الزام ہے۔ وہ مبینہ طور پر پاکستان میں پناہ گزین ہیں، آئی ایس آئی کا اثاثہ سمجھے جاتے ہیں۔ مشہور ہے کہ ان کے کراچی میں کئی کاروبار ہیں۔ اُن کی بیٹی کی شادی پاکستان کے سابق کرکٹر جاوید میاں داد کے لڑکے سے ہوئی۔ انہیں کبھی بھی رتھ یاترا سے منسلک کسی قانونی کیس کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ایڈمرل بھگوت کے انکشافات—خاص طور پر یہ کہ آئی ایس آئی سے وابستہ ایک مافیا ڈان نے ایک اہم مذہبی-سیاسی تحریک کو سپورٹ کیا ہو—1990 کی دہائی کے عام بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔ اگرچہ اس الزام کا ان کے کیرئیر پر براہ راست اثر نہیں ہوا، لیکن اس نے انہیں ایک باغی افسر کے طور پر مشہور کر دیا جو روایتی حدود کو توڑنے کو تیار تھا۔ ان کی برطرفی کی وجہ فوج اور حکومت کے درمیان تنازعہ تھا، لیکن ان کے سیاسی خیالات کی وجہ سے وہ انڈین فوجی-سیاسی تاریخ میں ایک متنازعہ شخصیت بن گئے۔
ایڈمرل وشنو بھگوت کی کہانی یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ جمہوریتوں میں بھی غالب سیاسی بیانیے کو چیلنج کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر جب یہ مذہب، قوم پرستی اور ریاستی طاقت سے جڑا ہو۔ ان کے الزام پر کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں، لیکن اِس الزام لگانے کے باوجود اُن کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔