نوازشریف کی نیب پر تنقید، حالات بتارہے ہیں کہ بہت کچھ ہونے والا ہے: خورشید شاہ

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہےکہ نیب نے پنجاب میں قدم بڑھایا تو نوازشریف نے بیان دیا جس سے حالات بتارہے ہیں کہ بہت کچھ ہونے والا ہے۔

اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ نیب نے پنجاب میں قدم بڑھایا تو نوازشریف نے بیان دیا جس سے حالات بتارہے ہیں کہ بہت کچھ ہونے والا ہے، نیب کے بارے میں وزیراعظم کے بیان پر حیرت ہوئی، وزیراعظم نے بیان پر تنقید کے لیے ٹائمنگ اور جگہ مناسب نہیں چنی، اگر انہیں ایسی بات کرنا تھی تو پارلیمنٹ میں آکر کہتے اور اسے اعتماد میں لیتے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ کو کچھ نہیں سمجھتے البتہ کنٹینر سیاست جاری رہتی تو پارلیمنٹ کی اہمیت بھی برقرار رہتی۔

خورشید شاہ نے کہا کہ جب دوسرے صوبوں میں نیب کام کررہی تھی تو حکومت خاموش تھی لیکن جب پنجاب کا نمبر آیا تو وزیراعظم کا بیان سامنے آیا اور جب چھوٹے صوبوں میں کارروائی ہورہی تھی تو حکومت کے وزرا کو زیادتی نظر نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے صرف نیب کے طریقہ کار پر اعتراض ہے اور کچھ نہیں، نیب بس اپنا طریقہ ٹھیک کرے ، نیب بغیر تفتیش کے لوگوں کو ملزم ٹھہراتی ہے جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ مکمل تفتیش کے بعد چارج شیٹ ہو اور ثبوت سامنے آنے کے بعد کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ نیب پر اعتراض سے نوازشریف سے متفق ہوں لیکن نیب کے بارے میں ہماری اپنی رائے ہے اس پر (ن) لیگ کو اس بیان پر سپورٹ نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب کو چننے میں میرا بھی کردار ہے کیونکہ چیئرمین کا انتخاب اپوزیشن کی مشاورت سے ہوا ہے ایسا لگتا ہےکہ ہم نے غلط بندہ چن لیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ہم نے پچھلے 7 سالوں میں کوئی کرپشن نہیں کی، اس سے یہ لگتا ہےکہ انہوں نے پہلے کرپشن کی ہے لہٰذا اب ہم کرپشن کرپشن کھیلنا نہیں چاہتے، احتساب سب کے لیے ہونا چاہیے، حکومتیں گرانے کا نیا طریقہ احتساب آگیا ہے جو ہمارے خلاف استعمال ہوا۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی تنقید کے بعد نیب ریفارمز متنازع ہوجائیں گی اور اب اچھی اصلاحات بھی بری لگیں گی لہٰذا نوازشریف اگر ایسی باتیں نہ کرتے تو ریفارمز پر اچھا کام ہوتا لیکن اب ان ریفارمز پر تنقید ہوگی کہ سیاستدان اپنے آپ کو بچانے کے لیے طریقہ کار تبدیل کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی کام کے لیے اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے پر ماحول بنانا پڑتا ہے لیکن نوازشریف کے دوست اس ماحول کو بگاڑ رہے ہیں، ان کے دوست اتنے قد آور نہیں، نوازشریف کو ہر مرتبہ اپنے ہی دوستوں سے خطرہ رہا جب کہ ان کے دوست کسی کو کچھ بھی کہتے ہیں تو نوازشریف اس پر چپ رہتے ہیں۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بیان کے بعد لوگوں میں کھلبلی مچ گئی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ وزیراعظم نے کس خطرے کی بو سونگھی۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو چور چور کہہ کر بڑا کمزور کیا، یہ ساری باتیں حکومت بھی کہتی ہے لیکن جب کوئی جواب دیتا ہو توحکومت کہتی ہے زیادتی ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے کہا کہ اب ان کے پاس 91 والے اختیارات نہیں جب کہ بظاہرایسا کوئی نہیں جو وزیراعظم کی طاقت چھینے کیونکہ صدر ممنون حسین تو بیچارے خود وزیراعظم کے ممنون ہیں ان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ نوازشریف سے اختیارات چھینیں۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ بظاہر نوازشریف اور آرمی چیف کے اچھے تعلقات ہیں تو پھر آخر کون ہے جو نوازشریف کے اختیارات چھیننا چاہتا ہے، میں حیران ہوں کہ نوازشریف سے ان کے 91 والے اختیارات کس نے چھینے اور کس نے انہیں دھمکی دی جب ملک کا وزیراعظم اس قسم کی باتیں کرے تو اس کا کچھ نہ کچھ مطلب ہوتا ہے تاہم نوازحکومت کو اندر سے کوئی خطرہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف اگر جمہوریت کو پامال کریں گے اور سسٹم کو خطرہ پہنچائیں گے تو سب سے پہلے ہم ان کے آگے کھڑے ہوں گے لیکن نوازشریف کے لوگ جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے کے حالات پیدا کررہے ہیں۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ برے وقت میں ہم نے (ن) لیگ پر کوئی احسان نہیں کیا، ہم نے حکومت کو نہیں بلکہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بچایا ہے جس کا ہم کوئی احسان نہیں جتاتے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار نے ایف آئی اے کی کارکردگی پر کمیشن بنانے کی بات کی تو پھر انہیں نیب کی کارکردگی پر بھی کمیشن بنانا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں صبر اور تحمل لازمی ہے، اگر کوئی جذباتی ہوجائے تو سیاست نہیں کی جاسکتی جب کہ دم پر پاؤں والی سیاست مناسب نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل راحیل شریف ایک دلیر سپہ سالار ہیں جس ملک کے دلیر سپہ سالار ہوں وہ خوفزدہ نہیں ہوتے، راحیل شریف پہلے دن سے حالت جنگ میں آئے ہیں وہ مدت ملازمت میں توسیع لے کر اپنا نام تاریخ سے ختم نہیں کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے