چالیسویں سالگرہ پر ” فیاضیاں ” کی چھٹی قسط اپنے قارئین کے نام۔۔۔۔۔
میں نہیں جانتا کہ عمر کی چالیسویں سیڑھی ( آج میری چالیسویں سالگرہ ہے )، چڑھتے ہی ناسٹالجیا کا عود آنا حقیقت ہے یا محض مجبوری، مگر یہ بات شاید طے ہے کہ اس عمر کو پہنچتے ہی بے بس یادیں دل کے کونوں کھدروں میں آوارہ گردی شروع کردیتی ہیں۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ حال میں پیش آنے والا کوئی واقعہ ذہن کے پردے میں اترتا ہے تو اس کی شدت دل کے نہاں خانوں میں بھی محسوس ہوتی ہے اور یوں آپ وقت کے جھولے پر سفر کرتے ماضی کی بھول بھلیوں میں جا نکلتے ہیں۔ ماضی کے بوسیدہ اوراق سے وقت کی دھول جھاڑنے لگوں تو جانے کیوں "وہ چہرہ” میری یادوں کے آنگن میں سما جاتا ہے۔ زندگانی کی پہلی پانچ قسطوں میں جس بھی واقعہ کا ذکر چھڑا، وہ واقعہ میرا ہاتھ پکڑ کو مجھے ” اسی” کے ہاں لے گیا۔ کیا "وہ ” ماضی کے اس سفر میں میرے لئے عمل انگیز ہے ؟ جس کی یاد کسی بھی ہونی یا انہونی کو مہمیز کردیتی ہے۔ کیا "اس ” کا ذکر نہ ہوا تو اپنا ماضی کریدنا مشکل ہوجائے گا؟؟؟
1992 کے بعد کی اکثر یادیں، اپنے ہاتھ سے لکھی ڈائری میں قید ہیں مگر ایسا کیوں ہے کہ یادوں کی پوٹلی جب بھی کھولنے لگوں تو ڈائری پر کالے کئے صفحات کی بجائے 1980 کی دہائی میں دل پر لکھی یادیں نرم گیلی مٹی کی مانند ہتھیلی پر پھیلنے لگتی ہیں، یادیں ! جن کی خوشبو برسوں سے سینے پر رکھے بوجھ کو وقت کی قید سے آزاد کردیتی ہے اور ماضی کے دھندلکوں میں گم کئی مناظر ہاتھ باندھے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
پہلا منظر ایک گھر کا ہے۔جس میں کھانے کے کمرے میں میز کے گرد بیٹھے تین بچے،غالبا دو بہنیں اور ایک بھائی، کورس کی شکل میں آواز لگاتے ہیں ” امی ! جتنی ہو جلدی لیکر آئیں پھول چٹنی” منظر بدلتا ہے اور باورچی خانے میں کھانا تیار کرتی ہوئی ماں چولہے پر رکھی دیگچی میں لکڑی کا چمچا ہلاتے ہوئی جواب دیتی ہے۔ ” بھیج تو دی ہے میں نے گڈو کے ہاتھ”۔ اسی دوران، چہرے مہرے سے شرارتی دکھنے والا ” گڈو ” آنکھوں میں چمک لئے، انگلیاں چاٹتا، دروازے پر نمودار ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں موجود پلیٹ میں سے چٹنی،بے رحمی سے انگلیاں چاٹنے کے باعث، نکل کر اس کے کپڑوں پر بھی نقش ونگار بنائے ہو ئے ہے۔ اور پھر کھانے کے کمرے میں بیٹھے، گڈو، کے باقی بہن بھائی،اسے دیکھتے ہی غصے اور بے بسی کے ملے جلے انداز میں پکار اٹھتے ہیں۔” پھول چٹنی گڈو نے کردی ہے صاف”۔ آخر میں بیک گراونڈ سے ایک بھاری سی آواز آتی ہے۔ ” پھول چٹنی پاوڈر، پھول چٹنی پاوڈر "۔
یہ 1980 کی دہائی کے پہلے پنجواڑے میں پاکستان ٹیلی ویژن پر چلنے والا ” پھول چٹنی پاوڈر ” کا وہ اشتہار تھا جسے دیکھ کر مجھے گمان ہو چلا تھا کہ دوسروں کا ” حق ” مارنے والے ہر لڑکے کا نام شاید "گڈو” ہی ہوتا ہوگا۔ یہ محض اتفاق تھا کہ انہی دنوں، ہمارے ٹینچ بھاٹہ والے گھر کے بالکل سامنے والے مکان میں بھی ایک عدد ” گڈو ” موجود تھا۔یہ والا گڈو، اگر میں بھول نہیں رہا تو تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور اس کی والدہ محلے میں ” ہندوستانی خالہ ” کے نام سے مشہور تھیں۔ وجہ شاید یہ رہی تھی کے ان کے بڑے بزرگ بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور وہ پورا خاندان جس زبان میں بات کرتا تھا، اسے محلے کے سب بچوں نے ” گلابی اردو ” کا نام دے رکھا تھا۔ ویسے وہ ہندوستانی خالہ تھیں بہت اچھی اور ملنسار، جو پورے محلے کی غمی خوشی میں سب سے آگے پیش پیش رہتی تھیں۔ محلے میں ” گڈو” کی وجہ شہرت یہی تھی کی اس کے نام کا ٹی وی پر اشتہار چلتا ہے جس پر اس کی بہنیں پھولے نہیں سماتی تھیں۔ ٹی وی پر چلنےو الے اس اشتہار کی بدولت ” پھول چٹنی پاوڈر ” ہمارے محلے والے گڈو کے ہاں بھی آنے لگا تھا اور کھبی کھبار ہندوستانی خالہ، وہ ریڈی میڈ "اشتہاری چٹنی” محلے والوں کو بھجوا دیا کرتی تھیں۔ ان کی نظر عنایت پانے والوں میں ہمارا گھر بھی شامل تھا۔
میں نجانے کیوں پھول چٹنی پاوڈر کا وہ تحفہ گھر آتے ہی چڑ سا جاتا تھا، ایسے میں ہمیشہ مجھے ” لنگری اور منگلے ” ( دونوں پوٹھو ہاری الفاظ ہیں ) کا وہ حسین ملاپ یاد آجاتا تھا، جن کے "ملن کی انوکھی واردات” میں نے اپنے علامہ اقبال کالونی والے کرائے کے مکان کے قریب آنٹی حمیدہ کی ہاں، ساجدہ کے ہاتھوں انجام پاتے دیکھی تھی۔ اس دن جمعہ تھا اور اسکول سے چھٹی۔ میں ہاتھ میں گیند بلا تھامے کاشف اور عاطف کی تلاش میں نکلا تھا۔ دونوں گھر نہ ہوں تو ان کی واحد منزل آنٹی حمیدہ کے گھر کی چھت ہوا کرتی تھی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی دروازے کے ساتھ، الٹے ہاتھ، چھت پر جانے کے لئے سیڑھیاں تھیں مگر میری پہلی نظر ساجدہ پر پڑی تھی جو سیڑھیوں کے بالکل سامنے، آنٹی حمیدہ کے کچن میں سر جھکائے، پیڑھی پر بیٹھی، لال رنگ لنگری میں کالے منگلے کی مدد سے چٹنی پیس رہی تھی۔ لنگری پر منگلے کی چوٹ ٹماٹروں اور پودینے کو ایک دوسرے میں گم ہونے پر مجبور کر رہی تھی۔ میں ساجدہ کی محویت دیکھ کر دم سادھے کھڑا ہوگیا تھا۔ اہسے میں ساجدہ نے منگلا اوپر اٹھائے بغیر اس کے نچلی کنارے کو لنگری کی اوپری تہہ سے رگڑا،ا س خوبصورت امتزاج سے، دل کے تاروں کو چھو لینےو الی موسیقی پیدا ہوئی اور ٹماٹر پودینے کی چٹنی کی اشتہا انگیز خوشبو پورے گھر میں پھیل گئی۔ اسی لمحے ساجدہ نے منگلے کے نچلے کنارے پر بچ رہنے والی چٹنی کو انگلی کی پور سے اتار کر چاٹ لیا،پھر سر اٹھا کر اوپر دیکھا اور میرا دل گویا اچھل کر حلق میں آگیا۔ میں بھاگ کر سیڑھیاں چڑھتے ہو ئے آنٹی حمیدہ کے گھر کی چھت پر جاپہنچا تھا۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ علامہ اقبال کالونی کی مسجد مائی جان والی گلی میں میرا کچھ کھو گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ مسجد مائی جان کے سامنے ہمارے کرائے کے مکان کی چھت پر، اوپری دیوار کے ساتھ، جالیوں کے سائے میں، وہ دو اینٹیں اب بھی دھری ہونگی جو پل بھر کے لئے میری عمر اور قد میں اضافہ کرکے مجھے خیالوں ہی خیالوں میں، اپنے سے دس بارہ برس پڑی ساجدہ کے برابر جا کھڑا کرتی تھیں۔ ساجدہ جس کی شادی کی خبر مجھے 1986 کی اس گرم دوپہر ملی جب میں اسکول سے واپسی پر ٹینچ بھاٹہ آنے کی بجائے علامہ اقبال کالونی جا نکلا تھا اور واپسی پر آنٹی حمیدہ نے میرے ہاتھ میں، اس کی ماں کے بھجوائے ہو ئے "لڈو” تھما دیئے تھے۔ اس دن کے بعد ساجدہ صرف اپنے ” گڈو ” کی ہوگئی مگر مجھے اب بھی پورا یقین ہے کہ اس کے ہاتھ کی بنائی ہوئی ٹماٹر اور پودینے کی چٹنی کا مقابلہ، 80 کی دہائی میں گتے کے ڈبے میں پیک ، مقبول عام "پھول چٹنی پاوڈر” کرسکتا تھا اور نہ ہی آج 35 برس بعد کسی بھی نیشنل یا ملٹی نیشنل کمپنی کی بظاہر خوبصورت اور دیدہ زیب، کوئی بھی رنگ برنگی بوتل۔۔۔( جاری ہے )