جون 1986 میں ساجدہ، شاید ہمیشہ کے لئے "کھو” گئی اور پھر میں اسے دوبارہ کبھی نہ ” پڑھ ” سکا، اس سے قبل، چار برس پہلے بھی، میں اسے ایک مرتبہ کھو بیٹھا تھا مگر وہ کھونا شاید عارضی تھا۔ اپریل 1982 میں علامہ اقبال کالونی والے کرائے کے مکان سے ٹینچ بھاٹہ والے اپنے گھر منتقل ہونے کے بعد, میرے لئے ساجدہ کو ” پڑھنا ” ممکن نہ رہا تو پہلے اسکول اور پھر کہانیوں کی کتابوں میں پناہ لی تھی۔ بہن بھائی بتاتے ہیں کہ میں نے چھ سات برس کی عمر میں ہی کہانیوں کی کتابوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردیئے تھے۔ وجہ شاید مس خالدہ رہی ہونگی، جنہوں نے المدثر گرائمر اسکول میں اتنی محبت اور محنت کے ساتھ اردو پڑھائی کہ بڑے ہوتے یقین ہوگیا ” محنت اور محبت کبھی ضائع نہیں جاتیں "۔
پانچ برس کی عمر میں اسکول داخل ہو ا تو یہ اپریل 1981 تھا اور پہلی جماعت ” اول ادنی ” کہلاتی تھی۔ اس کے بعد ” اول اعلی ” اور پھر دوئم۔ عوامی زبان میں اسے کچی، پہلی اور دوسری بھی کہا جاتا تھا۔ بتانا یوں مقصود ٹھہرا کہ دوسری جماعت میں ہی پہلے ٹارزن، عمرو عیار، چھن چھنگلو، آنگلو بانگلو اور چلوسک ملوسک سے ملاقت ہوئی اور پھر بات اے حمید کی عنبر، ناگ، ماریا پر جا کر رکی۔ مجھے آج بھی یاد ہے کچی کلاس میں میرا روزانہ کا جیب خرچ چار آنے تھا جو پہلی اور دوسری کلاس میں بڑھ کر آٹھ آنے ہوگیا تھا۔ جان کالونی میں مائی جان مسجد سے نزدیکی گلی میں موجود المدثر گرائمر اسکول سے آخری بس اسٹاپ کو رخ کیا جائے تو دائیں ہاتھ پر قصائی چوک پڑتا ہے۔ قصائی چوک سے الٹے ہاتھ، اکبر سٹیشنرز سے زرا آگے قریبا پچاس قدم کے فاصلے پر” گلف لائنریری” ہوا کرتی تھی مگر شاید میں بھول رہا ہوں اس کی باری بعد میں آئی تھی۔ پہلے ” شہر ادب ” سے تعارف ہوا تھا جو ٹینچ بھاٹہ روڈ پر آخری بس اسٹاپ سے 22 نمبر چونگی جاتے ہو ئے، قصائی چوک سے گزرنے کے بعد، ڈسپینسری گراونڈسے ذرا آگے اور اقبال ہوٹل سے زرا پہلے پڑتی تھی۔
شہر ادب نامی اسی لائبریری پر عنبر، ناگ اور ماریا سے پہلا تعارف ہوا تھا۔ "چار آنے روزانہ کرایہ” پر پہلے دن شاید ” چھ لاشیں ” ملی تھیں۔ اےحمید کا یہ ناول ان کی مشہور زمانہ ” موت کا تعاقب ” نامی سیریز کا ایک سلسلہ تھا جس کے آخری صفحے پر لکھے الفاط مجھے آج بھی یاد ہیں۔ ” رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا، عنبر گھاس پر لیٹ گیا ایسے میں اسے، ایک بوڑھا اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔ عنبر نے بوڑھے کو دیکھا اور اٹھ کر بیٹھ گیا”۔ نیچے لکھا تھا ” یہ حصہ ختم ہوا۔ پراسرار بوڑھا کون تھا؟؟؟عنبر کن حالات میں کنچن چنگا کی پہاڑی پر پہنچا؟؟؟عنبر کی ماریا سے ملاقات کیسے ہوئی؟؟؟ کیا ناگ زندہ ہوسکا ؟؟؟یہ سب کچھ ناول کے اگلے حصے ” ناگ زندہ ہوگیا ” میں پڑھیئے”۔ اس دن کے بعد عنبر، ناگ اور ماریا کے اس مثلث نے مجھے اور میرے دوست ایاز خان کو گھن چکر بنا ڈالا ( بچپن کے دوست ایاز خان سے آج بھی رابطہ ہے ) اور جیب خرچ کے طور پر ملنے والے آٹھ میں سے چار آنے اسی نیک کام پر خرچ ہونے لگے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ آنے والے دنوں، تیسری، چوتھی اور پانچویں کلاس میں مجھے امی جان سے روزانہ کا جیب خرچ ایک روپیہ ملنے لگا۔
اور پھر ذکر آتا ہے ایک ایسے مصنف کا جس نے مسلسل 30 برس مجھے اپنے قلم کے جال میں پھنسائے رکھا۔ یہ شاید 1984 کی دوسری ششماہی کی بات ہے، جب میرے کانوں نے پہلی مرتبہ اشتیاق احمد کا نام سنا۔ ناصر بھائی، شاہانہ آپی اور ثمینہ باجی کے درمیان نوک جھوک جاری تھی کہ ” دنیا کے قیدی ” پہلے کون پڑھے گا۔ دنیا کے قیدی نام تھا اشتیاق احمد کے اس ناول کا جو خاص نمبر تھا، ناصر بھائی کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ جولائی 1984 میں چھپنے والے اس خاص نمبر کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی مرتبہ ” شوکی برادرز ” کی "انسپکٹر جمشید” اور "انسپکٹر کامران مرزا” سے جاسوسی مہم کے دوارن ملاقات ہوئی گویا یہ اشتیاق احمد کی تینوں جاسوسی پارٹیوں کی پہلی مشترکہ مہم تھی۔
ناصر بھائی، جن کے ذمہ لائبریری سے ناول کرایہ پر لانے کی ذمہ داری تھی، بہن بھائیوں میں سب سے پہلے ناول پڑھنا اپنا حق سمجھتے تھے۔ اس بار بھی انہوں نے یہ حق استعمال کیا۔ وہ شاہانہ باجی اور ثمینہ باجی کو مزے لیکر لیکر سنارہے تھے کہ کیسے شوکی برادرز اس خاص نمبر میں "التانیو ” سے لڈو کھیلتے ہیں۔ یہ اشتیاق احمد کے ناولوں سے میری پہلی زبانی کلامی ملاقات تھی، ان دنوں میں المدثر گرائمر اسکول ٹینچ بھاٹہ میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔ دسمبر 1984 میں ناصر بھائی برطانیہ سدھارے تو سال چھ ماہ بعد یہ ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی کہ محلے کی لائبریری سے ” چار آنے روزانہ کرایہ ” پر اشتیاق احمد کے جاسوسی ناول گھر پہنچائے جائیں۔ 1985 میں لگنے والی اس لت سے میں 2015 میں بھی جان نہ چھڑا سکا اور 30 برس بعد بھی اشتیاق احمد کا ہر آنے والا نیا ناول مییں ضرور پڑھتا رہا ہوں۔
1986 سے 1996 وہ سال تھے جب یہ نشہ اپنے پورے جوبن پر تھا۔ اس دوران میں نے اشتیاق احمد کی زندگی کے سب سے پہلے ناول "پیکٹ کا راز ” سے لیکر اشتیاق احمد کے ریکاڑڈ یافتہ بچوں کے ادب کے ضخیم ترین ناول ” غار کا سمندر سے لیکر تمام ناول گویا چاٹے ہو ئے ہیں۔ سوائے "دنیا کے قیدی ” کے۔ محمود، فاروق، فرزانہ، انسپکٹر جمشید، خان رحمان، پروفیسر داود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آفتاب، آصف، فرحت، انسپکٹر کامران مرزا، منور علی خان، ،محمد یوسف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اشتیاق احمد عرف شوکی، اشفاق احمد، اخلاق احمد، آفتاب احمد المعروف مکھن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشتیاق احمد کے سب لافانی کردار میرے ارد گرد گھومتے ہیں،،،، جیرال، جیتال، اسابیہ،سلاٹر، کالی آنکھ، رے راٹا، التانیو، رونل، شیلاک، ریوٹا، سی مون، جی موف، زولان، ابظال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس کس کا نام لوں،، بدی کے ان کرداروں سے میں روزانہ کی بنیاد پر لڑتا رہا ہوں۔
گزرے 30 برسوں میں اشتیاق احمد کے سنسنی خیز، ہنگامہ آرا، مزاح اور جاسوسی سے بھرپور ناولوں نے مکتبہ اشتیاق، بازار لوہاراں ، جھنگ، صدر سے 12/9 مسلم پورہ، ساندہ کلاں، لاہور سے لیکر اٹلانٹس پبلی کیشنز کراچی سے ہوتے ہو ئے میرے دل تک کا سفر کیا ہے۔ اشتیاق احمد کی ایک ہزار کے قریب تصنیفات ( 800 سے زائد جاسوی ناول ) میں سے شاید آٹھ دس ہی ایسے ہوں جو میں نے نہ پڑھ رکھے ہوں ان میں سے ایک اشتیاق احمد کا نواں خاص نمبر ” دنیا کے قیدی ” ہے جسے آج تک پتہ نہیں کیوں میں نے گلی گلی، دکان دکان اور لائبریری لائبریری ڈھونڈنے اور پھر پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ جانے کیوں!!!
ایک بات کہوں ! مجھے سب سے پہلے، ا، ب، پ۔۔۔ شاہانہ آپی نے پڑھائی اور سکھائی تھی۔ 35 برس قبل ، مئی 1981 کی ایک شام جب میں ا، ب، پ پڑھتے ہو ئے، بار بار ” ت ” کھا کر ٹ اور ث پر پہنچ جاتا تھا تو شاہانہ آپی نے، تنگ آکر مجھے،کمرے میں بند کرکے باہر سے کنڈی لگا دی تھی۔ ” کمرے کے قیدی "کو ساجدہ کی آمد نے رہائی دلائی تھی۔ اس نے شاہانہ آپی سے کہا تھا ” یہ آہستہ آہستہ "سب کچھ” پڑھنا سیکھ جائے گا”۔اگر میں غلط نہیں تو شاید ساجدہ کے بعد میں نے اشتیاق احمد ہی کو ” دل ” سے پڑھا تھا مگر افسوس 100 دن پہپلے میں نے اشتیاق احمد کو بھی "کھو” دیا۔ وہ 17 نومبر 2015 کو اس دنیا سے چلا گیا، وہ خود تو دنیا کی قید سے "آزاد "ہوگیا مگر جاتے جاتے "کمرے کے قیدی” کو” دنیا کے قیدی” میں "قید ” کر گیا۔ (جاری ہے )