پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے پولیس کانسٹیبل ممتاز قادری کو منگل کی سہ پہر اسلام آباد کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
اسلام آباد کی انتظامیہ نے کسی بھی ممکنہ ردعمل کے پیش نظر ریڈ زون کو جانے والے بیشتر راستے کنٹینر کھڑے کرکے بند کردیے گئے تھے اور جگہ جگہ پولیس بھی تعینات تھی۔ اس موقع پر شہر کے بیشتر نجی اور سرکاری سکول بھی بند رہے۔ قادری کے خلاف مقدمے میں وکیل استغاثہ سیف الملوک نے کہا ہے کہ انہیں سزائے موت دے کر ایک پیغام دیا گیا ہے۔
قبل ازیں ممتاز قادری کے جنازے کے موقع پر راولپنڈی میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
ممتاز قادری کو اتوار اور پیر کی درمیانی شب اڈیالہ جیل میں پھانسی دی گئی تھی اور ان کی نمازِ جنازہ منگل کی دوپہر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ادا کی گئی ہے۔
جماعت اسلامی، اہلسنت و الجماعت، سنی تحریک اور دعوت اسلامی کے کارکنوں سمیت ہزاروں افراد نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
ان کے مطابق جنازے کے مقررہ وقت سے کئی گھنٹے قبل ہی لوگوں کی بڑی تعداد اس علاقے میں جمع ہوگئی تھی جو حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتی رہی۔
[pullquote]لیاقت باغ میں ممتاز قادری کے جنازے کی ویڈیو [/pullquote]
https://www.youtube.com/watch?v=K14iBJuBr2U&feature=youtu.be
لیاقت باغ اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو ٹریفک کے لیے مکمل طور بند کر دیا گیا جبکہ مری روڈ پر ٹریفک معمول سے انتہائی کم ہے اور شہر کی اس اہم ترین شاہراہ کو کئی مقامات پر کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔
ممتاز قادری کی نماز جنازہ پیر حسین الدین شاہ نے ادا کروائی اور نماز جنازہ کے بعد مقامی اور دیگر شہروں سے شرکت کرنے والے پرامن طریقے سے منتشر ہوگئے۔
اس موقع پر لیاقت باغ اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں پولیس کی نفری تعینات رہی جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں نظامِ زندگی معمول کے مطابق رہا۔
ممتاز قادری کی پھانسی کے خلاف راولپنڈی کی تاجر برادری کی جانب سے بھی احتجاجاً دکانیں بند کی گئی ہیں اور راولپنڈی کے بڑے بازاروں میں کاروبار مکمل طور پر بند ہے جبکہ شہر میں تعلیمی ادارے بھی منگل کو نہیں کھلے۔
ادھر وفاقی دارلحکومت کے نواحی علاقے بارہ کہو سے تقریباً چار کلومیٹر دور واقع گاؤں اٹھال میں بھی پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کی بڑی تعداد تعینات کی گئی جبکہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے علاقے کا فضائی جائزہ بھی لیا گیا۔
اٹھال میں ہی ممتاز قادری کی تدفین کے انتظامات کیے گئے تھے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ریڈ زون کی طرف جانے والے راستے سِیل کر دیے گئے تھے جبکہ سکول اور دکانیں بھی بند تھیں۔
پولیس نے پیر کی شب بڑی تعداد میں ایسے افراد کو حراست میں لیا ہے جو جنازے میں شرکت کے لیے وسطی پنجاب کے مختلف علاقوں سے راولپنڈی آ رہے تھے۔
پیر کو ممتاز قادری کی پھانسی کی خبر عام ہونے کے بعد بھی راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والی مرکزی شاہراہ سمیت کئی مقامات پر مظاہرین نے احتجاج کیا تھا اور ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوا تھا۔
راولپنڈی کے علاوہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں بھی احتجاجی جلوس نکالے گئے تھے۔
ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا تعلق سنّی تحریک اور جماعتِ اسلامی سمیت مختلف مذہبی جماعتوں سے ہے اور جماعتِ اسلامی نے قادری کی پھانسی کے دن کو یومِ سیاہ قرار دیتے ہوئے جمعے تک روزانہ احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد میں وکلا کی تنظیم اسلام آباد بار کونسل نے بھی پھانسی کے خلاف ہڑتال کرنے اور احتجاجاً عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے سابق اہلکار مجرم ممتاز قادری گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی سکیورٹی پر تعینات تھے اور انھوں نے چار جنوری 2011 کو اسلام آباد کے علاقے ایف سکس میں سلمان تاثیر کو سرکاری اسلحے سے اچانک فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے یہ قتل اس لیے کیا کہ ان کی نظر میں سلمان تاثیر پاکستان میں رائج توہینِ رسالت کے قوانین پر تنقید کرنے کی وجہ سے توہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے تھے۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر انھیں سنہ 2011 میں دو مرتبہ موت کی سزا سنائی تھی۔
سزا کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2015 میں اس مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات تو خارج کر دی تھیں تاہم سزائے موت برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔
اسی فیصلے کو دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا اور پھر صدر مملکت نے بھی ان کی رحم کی اپیل بھی مسترد کر دی تھی۔
ملک ممتا ز حسین قادری کو ان کی وصیت کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقے بہارہ کہو کے گاؤ ں اٹھال میں سپرد خاک کردیا گیا۔ ممتاز قادری کی کا جسد خاکی جن کے ان کے گاؤں اٹھال لایا گیا تو لوگوں نے ان کی یمبولینس پر گلاب کی پتیاں نچھاور کیں ۔
لحد میں اتارنے سے قبل ممتاز قادری کی دوبارہ جنازہ ادا کی گئی جس میں رکاوٹوں کے باوجود ہزاروں افراد شریک ہوئے ۔ یہ وہ افراد تھے جو لیاقت باغ جنازے میں شریک نہیں ہو سکے تھے ۔
[pullquote]ممتاز قادری کی میت کی گاڑی پر شہریوں کی جانب سے گل پاشی کی ویڈیو [/pullquote]
https://www.youtube.com/watch?v=eb3mggWwZyU&feature=youtu.be
ممتاز حسین قادری کا آخری دیدار کرنے کیلئے بہارہ کہو وملحقہ علاقوں سے شہری دوپہر ایک بجے سے ہی پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ ا س موقع پرتمام تجارتی مراکز مکمل طور پر بند رہے ۔ جنازہ اورتدفین میں مختلف علاقوں سے آنے والے شہریوں کووہاں کے مقامی شہریوں ، تاجروں کیجانب سے کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی سمیت لنگر بھی فراہم کیا گیا ۔
نماز جنازہ اورتدفین کے موقع پر رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے میں آئے تاہم لیاقت باغ سے اٹھال گاؤں میں تدفین تک نظم وضبط مثالی رہا۔ اٹھال گاؤں میں تدفین ممتازحسین قادری کی اپنی آبائی زمین میں ہی کی گئی ۔انتظامیہ کی جانب سے راستے سیل کئے جانے کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑ ا