سابق مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر کی پراسرار رہائی،پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کے ہاتھوں اغواء ہونے والے کئی بڑے واقعات میں سے ایک حل تو ہوگیامگر معمہ اور بڑھ گیاکیونکہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سیکیورٹی آپریشن کی تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے میڈیا پر آپریشن کے حوالے سے چلنے والی خبروں کا نوٹس لے لیا ہے ۔
شہباز تاثیر کی رہائی کے لیے دوارب روپے کا تاوان اور پندرہ قیدی مانگے گئے تھے،معاملہ کیسے حل ہوا ابھی اس پر پراسراریت کا پردہ پڑا ہوا ہے،دوسال پہلے شہباز تاثیر کی رہائی کے لیے ڈیل کرانے والا ایک ملزم چوہنگ ٹارچر سیل میں قید ہے ۔
آئی بی سی اردو کے ذرائع کے مطابق شہباز تاثیر کی بازیابی کے لیے 50 کروڑ تاوان ادا کیا گیا تاہم یہ تاوان کس کئ ذریعے اور کس کو ادا کیا گیا ، اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
دوسری طرف کچلاک کے ہوٹل ملازمین نے شہباز تاثیر کے کھانا کھانے بل ادا کرنے اور لاہور فون کرنے کا کہہ کر کئی اور سوالات کو جنم دے دیا ہے جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ کہیں شہباز تاثیر بھی برطانوی صحافی ایوین ریڈلے والا کردار تو ادا نہیں کردے گا؟
نائن الیون کے بعد جب سے اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف نے امریکی جنگ میں پاکستان کو دھکیلا تو افغانستان اور پاکستان میں عسکریت پسندوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے متعدد اہم ملکی و غیر ملکی شخصیات کو اغواء کرنا شروع کردیا، اکثر کے بدلے بھاری تاوان لیا جاتا رہا اور قیدیوں کی رہائی کے مطالبات کئے جاتے رہے جن میں سے بعض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رقم اور قیدی رہا ہوتے رہے۔
پاکستان کے شہر لاہور سے تین بڑے اغواء ہوئے جن میں سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل طارق مجید کے داماد ملک عامر،امریکی کنٹریکٹر وائرن وائن سٹائن اور سلمان تاثیر کے بیٹے شہباز تاثیر شامل ہیں۔
ملتان سے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی اغواء ہوئے۔
اسلام آباد سے کرنل امیر تارڑ المعروف کرنل امام اور آئی ایس آئی و پاکستان ایئرفورس کے سابق اہلکار خالد خواجہ ،عثمان پنجابی کے چکمے میں آگئے اور شمالی وزیر ستان گئے اور طویل عرصہ رکھنے کے بعد دونوں کو قتل کردیا گیا۔خالد خواجہ کی لاش پھینک دی گئی مگر کرنل امام کے قتل کی ویڈیوتو جاری کی گئی مگر ان کی لاش آج تک ورثاء یا حکومت کے حوالے نہیں کی گئی۔
سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی بھی تاحال بازیاب نہیں ہوسکے حالانکہ انہوں نے مولانا سمیع الحق کے ذریعے کافی کوششیں کی ہیں ۔
لاہور سے اغواء ہونے والے امریکی شہری وائرن وائن سٹائن کو مبینہ طورپر قتل کیا جاچکا ہے بعض اطلاعات کے مطابق ان کی ہلاکت امریکی ڈرون کے نتیجے میں ہوئی ہے ،ان کی ہلاکت کا اعلان خود امریکی صدر باراک اوبامہ نے کیا تھا ۔
لاہور سے اغواء ہونے والے ملک عامر رہا ہوچکے ہیں ان کی رہائی بھی پراسراریت میں تاحال دبی پڑی ہے اور کھل کر حقائق سامنے نہیں آسکے ہیں ۔
شہباز تاثیر کی ڈرون حملے میں مارے جانے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں مگر زیادہ باوثوق ذرائع کہتے ہیں کہ شہباز تاثیر کو عسکریت پسندوں نے ابتداء میں ہی نے افغانستان منتقل کردیا تھا اس لیے وہ ڈرون حملوں سے محفوظ رہے اور اب رہا ہوئے ہیں ۔
ان کی اور علی حیدر گیلانی کی بازیابی کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو خصوصی ہدایات دی تھیں ،شہباز تاثیر کی رہائی کے بعد علی حیدر گیلانی کی بازیابی بھی متوقع ہے۔
ذرائع کے مطابق تقریباً دوسال قبل عسکریت پسندوں سے رابطے میں رہنے اور وہاں آنے جانے والے کچھ عسکریت پسندوں کے ذریعے سلمان تاثیر خاندان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان ڈیل کی کوشش ہوئی تھی جس میں طالبان نے دوارب روپے تاوان مانگا تھا اور پندرہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا ۔
اس وقت یہ ڈیل پیسوں کی حد تک تیار تھی مگر جن قیدیوں کی رہائی کا طالبان مطالبہ کررہے تھے وہ سیکیورٹی اداروں رہا نہیں کرنا چاہتے تھے جس کے بعد یہ ڈیل اس وقت سرے نہ چڑھ سکی،اس وقت ڈیل کرانے والے ذرائع نے شہباز تاثیر کے بارے میں یہ بھی بتایا تھا کہ وہ شمالی وزیرستان میں امریکی شہری وائن سٹائن کے ساتھ ڈرون حملے میں مارا گیا ہے ،اس طرح وقتی طورپر یہ رابطہ بند ہوگیا،
کچھ عرصہ بعد یہ رابطہ کار پنجاب کے ایک اقلیتی ایم پی اے کے اغواء کرانے اور ڈیل کرانے کے الزام میں دھر لیا گیا اور اب وہ چوہنگ ٹارچر سیل میں قید ہے ۔
شہباز تاثیر کی مبینہ طورپر جس طرح گزشتہ روز رہائی ہوئی ہے اس پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں ،جن میں حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس نے سیکیورٹی آپریشن میں شہباز تاثیر کو بازیاب کرایا ہے جبکہ کچلاک کے ایک ہوٹل کے ملازمین نے میڈیا کو بتایا ہے کہ شہباز تاثیر کی شکل داڑھی بڑھی ہوئی اور پریشان حال ایک نوجوان آیا اس نے گوشت(روش) کا آرڈر دیا اس کا بل ساڑھے تین سو روپے ادا کیا اور پھر لاہور فون کرنے کے لیے موبائل مانگا جو انہیں دیا گیا تو اندازہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ ضرور کوئی مسئلہ ہے ۔
ادھر چوہدری نثار علی خان نے آپریشن کی تفصیلات پھر کبھی بتانے کا کہہ کر بات ٹال دی ہے،اس سے مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کہیں شہباز تاثیر بھی برطانوی صحافی ایوین ریڈلے والا کام نہ کردیں اور حکومتی دعوؤں کو غلط قرار نہ دے دیں ۔
بہر حال شہباز تاثیر کی بازیابی کے انداز اور دعووں نے نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے وضاحت ضرور ہے ۔
پنجاب حکومت کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے شہبازتاثیر کی بازیابی کے بعد انکے اغواء کی تحقیقات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق شہباز تاثیر اغوا کیس کی دوبارہ تحقیقات کیلئے پولیس نےتاثیر فیملی سے رابطہ کرلیا ہے ۔یہ جے آئی ٹی شہبازتاثیر کا بیان بھی ریکارڈ کریگی جس کی روشنی میں تحقیقات آگے بڑھائی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق بیان ریکارڈ ہونے کے دوران اغواکاروں کے خاکے بھی بنوائے جائیں گے ۔
وفاقی وزیرِداخلہ چودھری نثار نے شہباز تاثیر کی رہائی کے معاملہ پر غلط معلومات دینے کا نوٹس لیتے ہوئے اسپیشل سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی۔
وزارت داخلہ کے اعلامیہ کے مطابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا کہ ہمیں قوم کے سامنےسچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ آئی جی پولیس بلوچستان نے انہیں یہ خبر کیوں دی کہ شہباز تاثیر ایک آپریشن کے ذریعے بازیاب ہوئے جبکہ اصل واقعات اس کے برعکس تھے۔
اعلامیہ کے مطابق اس معاملے کی تحقیقات کے لیے اسپیشل سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جس کو دو دن میں اپنی رپورٹ وزیرِداخلہ کو پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی نیشنل کرائسسزمنیجمنٹ سیل بھی شامل ہیں۔