ایک عرصے سے ہماے ہاں سیکولرازم کے حامی اور کچھ دیگر حضرات قراردادمقاصد کو ایک تاریخی غلطی ثابت کرنے کی جسارت کررہے ہیں ، کہ گویا اس میں دیے گئے اصول نہ تو جدوجہد پاکستان کے محرک رہے اور نہ قائدین مسلم لیگ کے مطمع نظر ، بلکہ یہ مولانا مودودی کی شرارت تھی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
بحیثیت سی ایس ایس امیدوار مجھے پہلی دفعہ تاریخ ہندوستان کو روایتی بیانیے سے ہٹ کر پڑھنے کا تجربہ آج سے لگ بھگ دو دہایئاں قبل ہوا- ایک عمرتک مجھے بھی محض ریاست پاکستان کے سرکاری موقف سے ہی انڈین پارٹیشن کو دیکھنے کی عادت تھی- پھر وہ دورآیا جب میں نے ان مصنفوں، نقادوں اور موخین کو بھی پڑھا جو یا تو تقسیم ہند کے خلاف تھے یا غیر جانبدار – میں نے پوری ایمانداری سے اس تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے- میری دانست کے مطابق حقیقت اس سے بہت مختلف ہے جس طرح کچھ لوگ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جناح اور تحریک پاکستان کی پوری تاریخ پر غور کریں توآپ یا تو یہ رائے قائم کرینگےکہ قیام پاکستان کے پیچھے اصل ارادہ، مقصد اور وژن اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ اسلام کا نام منافقانہ طورپراستعمال کرکے محض چند افراد اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد حاصل کرسکیں۔ (میں کم ازکم قائد اعظم پر بغیر مستند شواہد کے اتنا بڑا الزام لگانے کےلیے خود کو مائل نہیں پاتا)- یا آپ یہ راۓ قائم کرینگے کہ پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کے جداگانہ مذہبی، تہذیبی اور تقافتی تشخص کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے سماجی، معاشی اورسیاسی مفادات کا تحفظ تھا
اس کے علاوہ تیسری مگرمحض لایعنی راۓ یہ ہوسکتی ہے کہ جناح اور مسلم لیگ محض انگریز کے ایجنٹ تھے جنہوں نے انڈیا اور ہندوستانیوں کو تقسیم رکھنے میں ان کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں ان کو ایک خطہ ارضی سے نوازا گیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ قائد اعظم اور مسلم لیگی قائدین کے سامنے بلاشبہ وہ پاکستان تو قطعی طورپر نہیں تھا جو مولانا مودودی رح کے پیش نظرتھا، لیکن میرا تاریخ کا مطالعہ مجھے یہ نتیجہ بھی اخذ کرنے نہیں دیتا کہ مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا مطالبہ محض ایک سیاسی مطالبہ تھا اور اس کے پیچھے وہ مقاصد تھے ہی نہیں جو بعد میں قراداد مقاصد کی صورت میں قانون ساز اسمبلی سے منظور ہوۓ اور بعد میں آئین پاکستان کا مستقل حصہ بن گئے –
اولا” قیام پاکستان کی جدوجہد میں بریلوی مکتب فکر کے علماء کے ساتھ ساتھ دیوبند مکتبہ فکر کے مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا شبیر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع صاحب وغیرہ کا کردار اہم تھا اور یہ سب لوگ فکر مودودی کے مخالفین میں سے تھے۔
ثانیا” حقیقیت یہ ہے کہ قائد اعظم جیسے زیرک اورمنظم کام کرنے والےلیڈر پر یہ الزام لگانا بڑی زیادتی ہے کہ ان کی پوری جدوجہد ہی کسی سوچے سمجھے وژن اور پروگرام کے بغیر تھی- ثالثا” آخر قائدین مسلم لیگ کو کیا پڑی تھی کہ اس مودودی کی باتوں میں آکر قراردار مقاصد کو گلے کا ہار بنابیٹھے جس نے انڈین نیشنل ازم اور مسلم نشنل ازم دونوں کی مخالفت کی (دیکھئے تحریک آزادی ہند اور مسلمان حصہ دوم) مگربڑے پیمانے پراپنے موقف کے حق میں عوامی پزیرائی نہ حاصل کرسکا – رابعا” اس وقت کی دستور ساز اسمبلی میں جماعت اسلامی سے وابستہ کوئی فرد موجود تھا نہ فکر مودودی کا حامی- وہاں تھے توچوھدری خلیق الزمان جیسے خالص سیکولرسٹ ، عبدالرب نشتر جیسے معتدل مزاج ، جگندر ناتھ منڈل جیسے غیر مسلم یا شبیر احمد عثمانی کی طرح روایتی اہل مدرسہ- پھرکیا ممبران کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی پر وہ کون سا جبر تھا کہ خواہ مخواہ ریاست پاکستان کو کلمہ پڑھوایا- علماء کی تجاویز اپنی جگہ، پاکستان کی اس وقت کی سیاسی قیادت پر مذہبی طبقے کی طرف سے اتنا دباو بھی نہیں تھا جس کے آگے مسلم لیگی بے بس ہوکرملک کو اسلام کے چکر میں پھنسانے پر مجبورہوتے۔ حقیقیت یہ ہے کہ قرارداد مقاصد نہ یو ٹرن تھی ، نہ لفٹ ٹرن، بلکہ اسی مقصد کی جانب پیش قدمی تھی جس کے لئے کم ازکم 1940 کے بعد سے مسلم لیگ کوشاں تھی، یعنی مسلمانوں کی الگ ریاست جس میں وہ اپنے عقیدے، تاریخی ورثے، ثقافت اور تہذیب کو محفوظ بناتے ہوئے زندگی گذار سکیں- یہ مقصد ایک سیکولر ریاست کے اصول پر ممکن ہوتا تو پھر متحدہ ہندوستان اور انڈین نیشنل ازم کا مقدمہ ہی درست تھا جس کی وکالت مولانا ابوالکلام آزاد، شیخ الہند اور حسین احمد مدنی رحمہم اللہ جیسے اکابر دیوبند کررہے تھے- ایسا ممکن نہیں تھا تبھی تو ہندومسلم اتحاد کے داعی سرسید مسلم قومیت کی وکالت پر مجبور ہوا، تبھی تو "ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا” تخلیق کرنے والے علامہ اقبال نے "مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا” کا نعرہ لگایا، تبھی تو ہندومسلم یونٹی کے امبیسیڈرجناح نےدوقومی نظریہ کا تاریخی مقدمہ لڑا۔ اسی لیے مسلم لیگ نے 1949 میں قرارداد مقاصد کی صورت میں جس دستاویز کو منظورکیا وہ عین مسلمانان پاکستان کی فکر اور امنگوں کے مطابق تھا- اگر اس میں پاکستانی عوام کی فکری ترجمانی نہ ہوتی ، تو اگرڈھاکہ میں اردو کے معاملے پر لوگ قائد اعظم کے تقریر کے دوران احتجاج کرسکتےتھے تو قرارداد مقاصد کی بھی عوامی سطح پر مخالفت ضرور کی جاتی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا- بلکہ لیاقت علی خان نے تو قراردادمقاصد کو قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا تھا۔ اور تب سے اقتدار مختلف نظریات کے حامل لوگوں کے ہاتھ میں آچکا ہے، لیکن کسی نے قرارداد مقاصد کو کسی کی سازش نہیں مانا۔ (جاری ہے)