جسٹ ویٹ! استاد گرامی، جسٹ ویٹ !

مہینہ شاید اپریل ہی کا تھا اورسال تھا 2001۔ ہمارے ” استاد گرامی ” ہم سے ناراض ہوگئے تھے۔ وجہ ناراضگی ہماری ان سے ” بحث ” ٹہری تھی۔ بحث جسے ہم ” اختلاف را ئے ” سمجھتے اور وہ ” بدتمیزی ” گردانتے تھے۔ "استاد گرامی ” کے اس رو یے کے بعد میرے ہاتھ میں پکڑے سادہ کاغذ پر قلم تیزی سے چلنا شروع ہوگیا تھا۔ قلم، جس نے صفحہ قرطاس پر یادوں کی بارات اتار دی تھی۔

آنکھوں سے عینک اتارتے ہو ئے ” استاد گرامی ” گویا ہو ئے۔ ” دیکھو دوستو! آج یونیوسٹی میں آپ کا پہلا دن ہے۔ اپنے تعلیمی کیریئر کے 15 برسوں میں آپ نے اپنے "اساتذہ کرام ” کی ہر بات پر لبیک کہا ہے اور ہر اختلاف کو شجر ممنوعہ سمجھتے ہو ئے اپنے دل میں دبایا ہے۔ میں آپ لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ آپ کے اور میرے life battle field میں صرف چند برسوں کا وقفہ ہے۔ میں کچھ برس پہلے ایم اے کرچکا ہوں جبکہ آپ ایم اے کرنے کے لئے آ ئے ہیں۔ اس لئے میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اور آپ برابری کی سطح پر رہتے ہو ئے باہمی بات چیت کے ذریعے بہت سی نئی چیزوں کو مل جل کر Explore کرینگے اور ہاں ایک بات اور، دوران لیکچر میں یہ نہیں چاہتا کہ ایسے محسوس ہو جیسے میں مٹی کی بے جان مورتیوں سے مخاطب ہوں اور آپ میری ہر بات پر ” امنا صدقنا ” کہتے ہو ئے ایمان لا رہے ہیں۔ میں آزادی اظہار کا قائل ہوں اور آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ کھل کر اپنے اختلاف کا اظہار کرینگے”۔

بات جاری تھی کہ موبائل فون کی کرخت آواز نے نے ” استاد گرامی ” کے شیریں لب ولہجہ کا سکوت توڑ دیا۔ لڑکے اور لڑکیاں بڑے متاثر اور سرشار نظر آرہے تھے۔ نوجوان اور وجیہہ استاد ان کے دل میں گھر کرچکا تھا۔ کلاس میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں مگر گزرنے وال وقت کلاس روم کے دروازے میں کھڑا مسکرا رہا تھا کیونکہ ” تھڑے ” پر بیٹھنے والوں کو ” اہرام ” پر بیٹھنے کی اجازت مل چکی تھی، ” چھپر ہوٹل ” میں بیٹھ کر ” دودھ پتی ” پینے والے ” آواری ” میں بیٹھ کر ” بلیک کوفی ” کا مزہ چکھنے والے تھے۔ گھر میں 20 برس تک والد صاحب کی ” آٹو ریورس آواز ” تم چپ رہو اور اسکول و کالج میں ” اساتذہ کرام ” کے ” ڈنڈے ” میں استاد ہوں، سے نجات ملنے والی تھی۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا. انہوں نے اپنے استاد کی بات کو پلے باندھ لیا اور اپنے اختلافی حق کا برملا اظہار کرنے لگے۔ یہ اجازت ان کے لئے کسی نعمت سے کم نہ تھی اور گویا ان پر ” من و سلوی ” کی بارش ہو رہی تھی۔

اس دوران ایک سیمسٹر بیت گیا۔ دوسری ٹرم کے آغاز میں ہی کلاس نے محسوس کیا کہ استاد گرامی کو اپنی اس ” غلطی ” کا احساس ہوچکا تھا کہ انہوں نے کیوں ” شہری بابووں ” کو ” خالص دودھ ” پلانے کی کوشش کی تھی۔ ظاہر ہے ان کا ہاضمہ تو خراب ہونا ہی تھا لیکن کیا کہیں کہ اب ” بھیڑ یئے ” کو خون کی چاٹ لگ چکی تھی۔ ” محروم ” لوگوں کو پیار مل چکا تھا۔ یہاں سے واپس لوٹنا بہت مشکل تھا۔ اور پھر ایک دن ان سے کہہ دیا گیا کہ اب ان کی ” بد تمیزیاں ‘ برداشت سے باہر ہوگئی ہیں۔ اہل علم لوگوں نے ” بد تمیزوں ” سے کہہ دیا کہ تم اس شخص سے بحث کرتے ہو جس سے بات کرنے کے لئے ” بڑے بڑے لوگ ” قطار بنا کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ ہاں واقعی وہ شاگرد ” احسان فراموش ” تھے جو اپنے استاد کے ” احسان ” کا بوجھ نہ اٹھا سکے مگر کون سمجھائے کہ انسانوں کو تو قید کیا جاسکتا ہے مگر خیالوں پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ خیالات غیر محسوس طور پر پھیلتے ہیں، نفوذ کرجاتے ہیں، چھپ جاتے ہیں اور اپنے مٹانے والے کی نگاہوں سے مخفی ہوجاتے ہیں۔ روح کی گہرائیوں میں چھپ کر نشوونما پاتے ہیں، پھلتے پھولتے ہیں، جڑیں نکالتے ہیں۔ جتنا آپ ان کی شاخیں جو بے احتیاطی کے باعث ظاہر ہوجائیں، کاٹ ڈالیں گے، اتنا ہی ان کی زمین دوز جڑیں مظبوط ہوجائیں گی۔

کلاس روم میں یہ سوال بڑی تیزی سے گردش کر رہا تھا کہ ہر لطف و کرم ان حاشیہ نشینوں کے لئے کیوں مخصوص ہوتا ہے جو ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ کوئی شخص اگر ان ” اہل دانش ” کے سامنے آزادانہ اپنی رائے کا اظہار کردے اور ان کی کسی بات سے اختلاف کرے تو وہ ” لاڈلے بچوں ” کی طرح کیوں روٹھ جاتے ہیں۔ استاد گرامی کہنا یہ ہے کہ بچے اگر اندھیرے سے ڈریں تو کوئی تعجب نہیں لیکن اگر ” بالغ استاد "روشنی سے ڈرنے لگے تو یہ حیرت کی بات ہوگی۔ کہنا یہ ہے کہ ” نشئی ” سے بھی نشہ چھڑوانے میں کچھ وقت تو لگتا ہی ہے نا اور یہ تو نشہ بھی ایسا ہے کہ ” چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی "۔ اس لئے تھوڑا سا تو انتظار کیجئے نا "استاد گرامی "۔

15 برس گز گئے ،مہینہ اب بھی اپریل کا ہے اور سال 2016۔ گزشتہ چند دنوں میں ” استاد گرامی ” نے جو کچھ لکھا اس سے لگتاہے کہ اب کی بار پھر وہ ” اختلاف را ئے ” کو ” بدتمیزی ” سمجھ کر سب سے ناراض ہوگئے ہیں۔ ایک بار پھر بصد ادب عرض کروں گا کہ Just wait استاد گرامی Just Wait۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے