آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں آجکل سیاسی گٹھ جوڑ عروج پر ہے۔ کوئی سیاست میں قدم رکھ رہا ہے تو کوئی سیاسی محاذ آرائی کے لئے دیواریں بلند کر رہا ہے۔ یہ گٹھ جوڑ اس دنیا فانی کا قانون ہے جو روزِ اوّل سے شروع ہوا تھا اور رہتی دنیا تک باقی رہے گا۔ میں بقلم خود ممتاز حسین کسی سیاسی جماعت سے ہوں نہ دور تک کسی وابستگی کا امکان موجود ہے۔ چونکہ میرے کالم "درہ” کی تلاش کی ابتدا "باغ کانفرنس” کے انعقاد سے ہو رہی ہے تو قارئین مبادا یہ خیال نہ کريں کہ ملک سے ہزاروں میل دور رہ کر بھی "باغ کی سیاست” بارے سوچتا ہوں۔
سیانے کہتے ہیں کہ جب کوئی کام شروع کرنے لوگ تو مشورہ کر لو۔ قحطُ الرجال( بندوں کی کمی) میں دیوار سے بھی مشورہ جائز تصور کیا جاتا ہے۔
ایسے ہی جب آپ کوئی باغ لگانے کا سوچتے ہو تو یہ کام کسی "باغ کانفرنس” سے شروع نہیں ہوتا۔ بلکہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ ایک پودے کو وہ حالات فراہم کئے جائیں جن میں وہ اپنی ذاتی ایجاد کی صلاحیت کو بروئے کار لائے اور درخت کی صورت ترقی کرکے "باغ” کے مجموعہ کا جزو بن جائے۔
یہی طریقہ ملت کی تعمیر کا بھی ہے۔ ملت کی تعمیر دراصل افراد کی تعمیر کا نام ہے۔ ایک ایک فرد کو باشعور بنانا، ایک ایک فرد کی چھپی ہوئی فطری صلاحیتوں کو بیدار کرکے اس کو حقیقی انسان کے درجہ پر پہنچانا، ایک ایک فرد کے اندر یہ احساس پیدا کرنا کہ وہ دوسرے بھائیوں کے لئے مسلئہ بنے بغیر اپنے ترقیاتی امکانات کو ظہور میں لانے کی جدوجہد کرے۔ اسی قسم کے عمل کا نام ملت کی تعمیر ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ بے فائدہ شور و غل ہے اور اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے۔ یہاں کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی کے لئے بے روک ٹوک مواقع کھلے ہوئے ہوں اور میدان میں اس کا کوئی حریف موجود نہ ہو۔ ایسا نہ کبھی اس زمین پر کسی کے لئے ہوا ہے اور نہ کسی کے لئے ہو گا۔ زندگی حقیقتہً رکاوٹوں کے درمیان سے اپنے لئے رستہ نکالنے کا نام ہے نہ کہ رکاوٹوں کی غیر موجودگی میں بے خوف و خطر دوڑنے کا۔
تاریخ کا مطالعہ جس طرح یہ بتاتا ہے کہ انسان کی اپنی زندگی کا آغاز ہمیشہ رکاوٹوں اور مشکلوں کے درمیان کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ رکاوٹیں خواہ کتنی ہی زیادہ ہوں ہمیشہ آدمی کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ کھلا ہوتا ہے جس سے وہ چل کر اپنی منزل پر پہنچ سکے۔ مگر یہ راستہ انہی لوگوں کے لئے ہے جو راستے کے "بند مقامات” پر سر نہ ٹکرائیں بلکہ دوسرے گوشوں میں اپنے لئے کوئی "درہ” تلاش کرکے آگے بڑھ جائیں۔
پھر تاریخ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ حادثہ خواہ کتنا ہی بڑا ہو، اس کی تلافی کی صورت بھی انسان کے لئے ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی آفت یا حادثہ انسان کے لئے اس امکان کو ختم نہیں کرتا کہ وہ دوبارہ زیادہ بہتر منصوبے کے ساتھ اپنے عمل کا آغاز کرئے اور کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ نئے انداز سے حاصل کرلے۔
جو کچھ دوسرے انسان کے پاس ہے وہی آپ بھی حاصل کر سکتے ہیں بشرطیکہ آپ اس راز کو جان لیں کہ اس دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتا ہے حقیقت پسندانہ جدوجہد سے ملتا ہے نہ تمناؤں اور خوش خیالیوں سے۔۔۔۔۔۔۔