بڑا تعلّق ہے۔ برستی بارش اور کشور کمار کی آواز کا۔ کشور بارش کو دیکھ کے گاتا تھا یا بارش کشور کی آواز سن کے برستی ہو گی۔ بہرحال، ان دونوں میں کوئی تعلق رہا ہو یا نہیں آج پاگلوں کی طرح میری گاڑی کی چھت سے سر پٹختی بارش اور یہ لال رنگ ایک دوسرے سے بڑے جڑے اور ہم آہنگ لگ رہے تھے۔ زمین پہ قدرتی طور پہ نمودار ہونے والے پیالے ایسے ہی دکھائی دے رہے تھے کہ جیسے لال رنگ سے بھرے ہوں۔ وہی لال رنگ کہ جس سے ستایا ہوا کشور کمار درد میں لپٹی ہوئی بے بس آواز سے خود کلامی کی سی کیفیت میں نا امیدی کی آغوش میں پَلا سوال کر رہا ہے کہ” یہ لال رنگ کب مجھے چھوڑے گا”۔
آفس پہنچنے تک بارش تو تھم چکی مگر تب تک وہ بول گاڑی کے سپیکرز سے نکل کے ذہن میں ڈیرے جما چکے تھے اور کبھی لبوں پر تو کبھی لاشعور کی ٹیپ پر وہ گانا پھر سے بجنے لگتا ۔ غنیمت آفس کی مصروفیات کہ جنہوں نے کچھ دیر کے لئے کشور کو ذہن سے محو کیا تو ذرا آنکھوں کے رنگ بدلے ورنہ تو چاروں اور لگنے لگا تھا کہ جیسے کسی نے افق کی لالی کو پچکاری میں بھر کے پھیلا دیا ہو جس کی وجہ سے ہر طرف لال ہی لال دکھنے لگا تھا۔ اپنے کام میں غرق میں کچھ بہت ہی ضروری کرنے میں مگن تھا کہ موبائل کی سکرین ایک تھر تھراہٹ کے ساتھ آن ہوئی۔ کسی مہربان نے پھر سے بے وجہ کسی تصویر میں ٹیگ کیا تھا۔ کون گستاخ ہے۔ یہ دیکھنے کے لیے موبائل اٹھایا تو اس تصویر کو دیکھتے ہی کشور صاحب پھر سے گنگنانے لگے۔ یہ لال رنگ۔
آج تو لگتا تھا دن ہی اسی رنگ کا ہے۔تصویر میں دہ خواتین گھٹنوں کے بل ایک بینچ پہ کھڑے منہ پشت کی طرف موڑے کیمرے کو دیکھ کے مسکرا رہیں تھی اور ان کے ارد گرد ان کے دو مرد کلاس فیلوز انہیں دیکھ کے معنی خیز مسکراہٹیں پھیلا رہے تھے۔مگر قابل غور تھا وہی منحوس لال رنگ جو انہوں نے اپنے کپڑوں پہ لگا رکھا تھا۔ مجھے لگا کہ شاید یہ بھی کشور کی طرح اس رنگ سے بہت تنگ ہیں لیکن تفصیلات اس اندازے کے بالکل برعکس نکلیں۔ یہ خواتین تو اس رنگ کی بڑی شیدائی نکلیں۔ یہ بی این یو کی طالبات تھیں ، جو اپنے ماہانہ نسوانی مسائل کے حوالے سے حقوق کی آواز بلند کر ر ہی تھیں۔ ان کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ اس رنگ میں رنگ کے "رنگ دے تو موہے لالوا” اپنی یونیورسٹی کے مرد کلاس فیلوز کے ساتھ ایسے ہی گائیں جیسے کاجل نے شاہ رخ کے ساتھ ” رنگ دے توموہے گیروا” گایا تھا اور من ہی من میں شاید یہ بھی چاہ رہی ہوں کہ کپل شرما کے کامیڈی شو کے کیریکٹر گتھی کی طرح اس لال رنگ کو پینٹ برش سے پورے جسم پہ مل کے پوری دنیا کو دکھائیں۔
لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ گتھی جتنا اعتماد ان میں کبھی نا آ سکتاکیوں کہ گتھی کا برش اور رنگ تو نظر آ ہی رہا تھا، رنگ والا ڈبہّ بھی وہیں سامنے ہی تھا لیکن وہاں شاید حقوق کی یہ دیوانیاں اپنی ذات کی چھوٹی سی پڑیا میں پڑی شرم کی آخری بچی چٹکی کے سبب شرما گئیں اور ڈبےّ کی تخلیق انہوں نے تصویر دیکھنے والوں کی تصوّراتی حس کے ذمہّ لگا دی کہ ظاہر ہے آج کی اس مہم کا تعلق فقط لال رنگ سے ہی تھا باقی حقوق کی نمائش اگلی قسط پہ سہی جس میں یہ تقاضا کیا جا سکتا ہے کہ جب لڑکے گرمیوں میں کچھے پہن کےلاہورکی نہر کے ٹھنڈے پانی کے مزے لے سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔
ابھی تک بہت سے پڑھنے والے اس تحریر کو واہیات کہہ چکے ہوں گے اور حقیقت بھی یہی ہے۔ اس تصویر کی تفصیلات بھی کچھ خاص مختلف نہیں تھیں جسے دیکھ کے بے اختیار خواجہ آصف کا وہ معروف جملہ یاد آتا ہے کہ کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے لیکن بی این یوکی ان طالبات کے سلیبس سے شاید اس طرح کے مترادف الفاظ بھی نکال دئیے گئے تھے اور انہوں نے بے حیائی کی اعلٰی ترین سند سی جی پی ۴ میں سے ۵ پوائینٹ لے کے لال میڈل حاصل کر لیا۔ کیا واقعی یہ حقوق کا مسئلہ تھا۔ نہیں، کیوں کہ بے حیائی اور بے شرمی کوئی حق نہیں کہ جسے مانگنے کے لئے آواز بلند کی جائے اور خبروں کی زینت بنا جائے۔ اس کے لئے آواز اٹھانے کی نہیں فقط چادر اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ اگر آپ اپنے بھائی یا باپ کو اپنے رنگے کپڑے دکھا کے کچھ منگوانا چاہ رہی ہیں تو منگوا لیں۔ ہو سکتا ہے وہ بڑی توجّہ سے آپ کی اس ماہانہ ضرورت کی تفصیل پوچھیں کہ کس طرز کے، کس کمپنی کے وغیرہ وغیرہ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بہت قریبی تعلّق کی بنا پہ آپ کو چند مفید مشورں سے بھی نواز دیں جس سی آپ کی بے چینیوں کو کافی راحت ملے۔ تو اس کے لئے آپ کو اغیار کے جلو میں یونیورسٹی کی دیواروں کو شرمندہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے یا ہمیشہ یا ہمیشہ کا ورد کرتے ہوئے اپنی ضرورتوں کو ایک فریم میں سجا کے بمعہ اپنے کیلنڈر کے اپنے والد یا بھائی کے کمرے کی دیوار پہ لگا دیں تا کہ ہر ماہ آپ کی اپنی نا سہی مگر ان کی شرم و حیا کو امتحان میں نہ ڈالنا پڑے اور نہ انہیں اپنی بیٹی کے حقوق پورے نہ کر سکنے کے احساس جرم میں آنکھیں جھکانا پڑیں۔ کیونکہ جس معاشرے کا ہم حصّہ ہیں تو جب اس میں بیٹیوں کی نظریں اٹھ جائیں وہاں باپ اور بھائی نا چاہتے ہوئے بھی اپنی نظریں جھکا لیتے ہیں ۔
اور رہا دکان دار کا براوُن لفافہ تو اس میں آپ کے حقوق کی پامالی کا کوئی عنصر شامل نہیں بلکہ یہ اس دکان دار کی اپنی اخلاقیات کا تقاضا ہے اور اگر اس کا یہ عمل آپ کو اپنی آزادی کا قتل لگ رہا ہے تو اس کے لئے بھی اخباروں کو آئیٹم خبر دینے کی بالکل بھی ضرورت نہیں کیونکہ کسی بھی دکان دار نے کہیں بھی یہ لکھ کے نہیں لگا رکھا کہ ہمارے ہاں آپ کے حقوق کا گلا براوُن لفافے میں بند کر کے دبایا جاتا ہے ۔آپ چاہیں تو بلکل لڑکوں کی طرح اپنی ضروری اشیا کھلے عام مانگ سکتی ہیں اور براوُن لفافہ پھاڑ کے باہر گلی میں جا کے بالکل اپنی کونووکیشن کی کیپ کی طرح اچھال اچھال کے تصویریں بنا سکتی ہیں بلکہ چاہیں تو اسے لال رنگ کے ربن میں پرو کے گلے میں ڈال کے پورٹریٹ بھی بنوا سکتی ہیں۔ آپ کو کوئی نہیں روکے گا۔ کیونکہ بے شرمی اجازت کی محتاج نہیں ہے اس کے لئے صرف ننگی سوچ کی ضرورت ہے اور اس میں آپ نے ثابت کر دیا کہ آپکا کوئی ثانی نہیں ۔
بد تہذیبی کوئی حق نہیں ہے اختیار ہے۔ کچھ لمحے کے لئے اگر اسے آپ کا حق سمجھ بھی لیا جائے تو یہ آپ کو اس معاشرے نے نہیں دینا بلکہ یہ آپ کے اپنے اختیار میں ہے۔ چادر آپ کی اپنی ہے۔ اسے سر پہ رکھیں یا دیوار پہ چپکا کے اپنے کپڑوں پہ لگے لال رنگ کی سر عام نمائش کریں۔ معاشرے کا کیا ہے وہ یا تو آپ کو دیکھ کے نظریں جھکا لے گا یا آپ کے کپڑوں پہ پھیلتے رنگوں سے آنکھیں رنگین کر کے معنی خیز نظروں سے مسکرا دے گا۔ بلکل ویسے ہی جیسے اسی تصویر میں آپ کے دائیں بائیں بانچھیں پھیلائے کھڑا ہے۔
میرے ایک چچا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ کافی خون بہا۔ جب ہوش میں آئے تو چلاّ چلاّ کر کہنے لگے۔ میں وی لال ولال میری گڈی لال و لال
بڑا ہی خبیث رنگ ہے۔ ایک بار لگ جائے تو کسی کو کہیں کا نہیں چھوڑتا ۔ کشور کمار، بی این یو کی طالبات اور میرا چچا ۔ "یہ لال رنگ”۔۔۔۔