بانی پاکستان کا خواب اور موجودہ پاکستان

پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے, جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا- مملکت خداداد پاکستان کی بنیاد تشکیل پانے سے پہلے مسلمان ہندو ریاست کے اندرپسے ہوئے تهے- کوئی بهی بنیادی اور اہم کام وہ اپنی مرضی اور اختیار سے انجام نہیں دے سکتے تهے-نہ کوئی مسجد بناکر اس میں عبادت انجام دے سکتے تهے, اور نہ ہی آذاد کهلی فضا میں وہ اپنے مذہبی رسومات قائم کرسکتے تهے- یہاں تک کہ مسلمان اپنے بچوں کو ایک معیاری اسکول میں بهیج کر تعلیم دلوانے کا بهی حق نہیں رکهتے تهے- معاشی, تہذیبی, ثقافتی,مذہبی غرض ہر لحاظ سے مسلمانوں کا استحصال کیا ہوا تها-

مسلمان صبح وشام بس اپنے مقدر کو کوستے رہتے- اپنی زندگی سے بری طرح نالاں تهے- ہندووں کے درمیان وہ اپنے وجود کو ایک اضافی شی تصور کرتے تهے- ناگہان خالق کائنات نے شاعر مشرق عظیم مفکر علامہ اقبال کے پاک وشفاف ذہن میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست قائم کرنے کی فکر پیدا کردیا- اس سلسلے میں ان کا 1930 کا خطبہ آلہ آباد بہت اہم ہے – اس میں علامہ نے واضح طور پر یہ اعلان کردیا کہ میں ہندوستان اور اسلام کے مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں – علامہ نے لندن میں اس فکر کو قائد اعظم محمد علی جناح کے ذهن میں ڈال دیا- قائد اعظم کو یہ مشورہ بهی دیا کہ آپ اسلام کے احیا کی بات کریں – یہ چیز مسلمانوں کے جزبات کے اندر گرمی اور حرارت پیدا کرے گی – محمد علی جناح علامہ کی اس تجویز کو سن کر بہت خوش ہوئے – چنانچہ محمد علی جناح نے 1937 سے لیکر 1947 تک پورے دس برس مسلسل تکرار کے ساتهہ صرف اسلام کی بات کی- کہا کہ ہمیں اسلام چاہئے- ہم اسلامی تہزیب اسلامی قوانین چاہتے ہیں , جو ہندو قوانین سے یکسر الگ ہیں – اسلام صرف ہمارا مذہب نہیں بلکہ دین ہے – یہ زندگی کے تمام معاملات پر حاوی ہے – اس چیز نے مسلمانوں کے اندر ایک ولولہ تازہ پیدا کردیا – بنابر این نصرت خدا ,فکر اقبال اور قائد اعظم کی شب وروز کی انتهک کوشیشوں کے نتیجے میں بالآخر پاکستان معرض وجود میں آیا- مسلمانوں کی دیرینہ تمنا اور آرزو پوری ہوئی – مسلمانوں کو سکه کا سانس لینے کا موقع ملا – سکون اور چین کی زندگی میسر آئی – بانی پاکستان نے فکر اقبال کے بل بوتے پر جن مقاصد کے پیش نظر وطن عزیز پاکستان کو وجود میں لانے کی جدوجہد کی ہے وہ یہ ہیں – اول – اس ملک میں صرف خدا کا قانون نافذ ہوگا قانون الہی سے متضاد قوانین کے لئے اس ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہوگی – دوم – اس ملک میں مسلمان بالکل آذادی اور اختیار سے اپنے مذہبی رسومات قائم کرسکتے ہیں-اپنی مرضی سے عبادات سر انجام دے سکتے ہیں- کسی کو مزاحمت یا ممانعت کا حق حاصل نہیں ہوگا – سوم- اس ملک میں سارے مسلمان اخوت اور بهائی چارگی سے اپنی زندگی کے لمحات گزاریں گے – چہارم- وطنی , لسانی , قومی اور دوسرے تعصبی کینسر سے بهی خطرناک جان لیوا بیماریوں سے اپنی حفاظت کرتے ہوئے اس ملک میں سارے مسلمان انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کو دیکهیں گے – پنجم – ایمان , اتحاد , اورتنظیم کو اس ملک میں سارے امور کی بنیاد اور اساس قرار دیتے ہوئے سارے مسلمان ایک دوسرے سے شیر وشکر ہوکر عزت کی زندگی بسر کریں گے – شیشم – تمام حقوق ( تعلیمی , تنظیمی , تربیتی , امنیتی ,سیاسی , معاشی ..وغیرہ ) سے بلاتفریق سارے مسلمان چاہے وہ امیر ہوں یا غریب یکساں طور پر استفادہ کریں گے – معمار قوم اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بے انتہا دلسوز تهے – جس کا اندازہ مختلف مواقع پر کئے ہوئے آپ کی تقاریر کو پڑهہ کر کیاجاسکتا ہے –

جون 1938 مسلم لیگ کا جهنڈا نبی اکرم کا جهنڈا ہے – 22 نومبر 1938 اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے – 7 اگست 1938 میں اول وآخر مسلمان ہوں -14 نومبر 1949 انسان خلیفتہ اللہ ہے – 9 مارچ 1940 ہندو اور مسلمان دوجداگانہ قومیں ہیں – 22 مارچ 1940 میرا پیغام قرآن ہے – لیکن بانی پاکستان کی رحلت کے بعد بدکردار, بدعنوان , ضمیر فروش , خواہشات نفسانی کے اسیر , حقائق سے نابلد ظالم وستمگر حکمرانوں نے وطن عزیز پاکستان اور اس کے باشندے مسلمانوں کے ساتهہ وہ کهیل کهیلا جس کی مثال شاید تاریخ بشریت میں ملے – ان کے کرتوت کو دیکهہ کر انہیں انسان کہتے ہوئے بهی ہمیں شرم آتی ہے – خائن حکمرانوں نے پاکستانی مظلوم قوم کو دوبارہ اغیار کی غلامی میں زلت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا , بے چارے عوام پر ہر طرح کے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکهی – تمام شعبہائے زندگی میں اسلامی نظام کے مخالف و متضاد قانون اجرا کردیا – جو بهی حکمران آیا وہ غاصب , خائن اور غدار ثابت ہوا – اسلام اورنظام اسلامی کو پس پشت ڈال کر وہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل میں اس قدر غرق ہوے, کہ قوم اور وطن کی فکر کرنے کی صلاحیت ہی کهو بیٹهے – معیشت , ثقافت , تہذیب , علم وہنر غرض ہر میدان میں وہ مغرب کے مطیع تام بن گئے , اور مغرب کو اپنے ملکی نظام کے لئے مستقل آئیڈیل قرار دے کر ملک کو قعر مزلت کی اتهاہ گہرائی میں پہنچا دیا – چنانچہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی ہوئی مملکت میں آج سارا نظام مغربی ہے کوئی بهی نظام اسلامی نہیں ;

کچهہ نمونے :
(نظام معیشت) بانی پاکستان نے سٹیٹ آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تها – کہ اب آپ کو اسلام کا نظام معیشت تیار کرنا ہے – مغربی نظام معیشت نے انسان کو کوئی خیر اور بهلائی عطا نہیں کی – لیکن آج ہماری معیشت سود پر مبنی ہے حالانکہ اسلام کی نظر میں سود گناہ کبائر میں سے ہے – ( نظام امنیت) یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امن وامان کے اعتبار سے بلکہ ہر جہت سے جنگل میں رہنے والے جانور ہم سے بہتر سہولیات کے حامل ہیں – وہ ہر روز تازہ خوراک کهاتے ہیں , قدرتی چشموں سے شفاف پانی پیتے ہیں – ان کو سانس لینے کے لئے صاف ہوا میسر ہے – اپنی مرضی اور اختیار سے بلکل آذاد کهلی فضا میں ہر روز وہ سیر کرتے رہتے ہیں – لیکن ہم بدقسمت پاکستانی قوم کو نہ ہر وقت آٹا دستیاب رہتا ہے اور نہ ہی پینے کو صاف پانی ملتا ہے – یہاں تک کہ اب تو ہم اپنی سرزمین پر جینے کا بهی حق نہیں رکهتے ہیں – پاکستان کی امن عامہ کی صورتحال اس قدر خراب ہوئی ہے , کہ غریب لوگ اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر محنت مزدوری کے لئے گهر سے باہر نکلتے ہیں , لیکن زندہ گهر والوں کے پاس واپس لوٹنے کا کوئی یقین نہیں ہوتا – انتہائی افسردگی , غمگینی , پریشانی اور اضطراب وبے چینی کے عالم میں وہ پورا دن گذاردیتے ہیں – آئے روز بے گناہ افراد کا ناحق خون بہانا اب پاکستان میں معمول بن گیا ہے –

اگر از باب اتفاق کهبی کسی دن دلخراش حادثہ پیش نہیں آتا ہے تو لوگ متحیر ہوتے ہیں – پاکستان میں نہ امیر کو امن وامان ہے , اور نہ ہی غریب کو – نہ حکومتی املاک کو امنیت حاصل ہے , اور نہ ہی حکومتی ادارے کو – نہ مذہبی رہنما محفوظ ہیں , اور نہ ہی اسکول کے نونہال فرشتے – ( نظام ثقافت) پاکستانی قوم اپنی ثقافت کو دانستہ یا نادانستہ یکسر طور پر فراموش کرچکی ہے – پاکستان کے معاشرے میں مغربی نظام ثقافت تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے -مغربی نظام ثقافت کا لوگ بڑی گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں – بڑے افتخار سے لوگ اس کی تبلیغ وترویج کرتے ہیں – مشرقی ثقافت کو اپنا عیب سمجهتے ہیں- مغرب زدہ سرکاری ادارے فیشن شوز اور رنگارنگ ثقافتی پروگراموں کے نام عریانیت اور فحاشیت کی قباحت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو ترقی یافتہ تہزیب اور روشن خیالی کا نام دے دیا گیا ہے – عریانیت وفحاشیت کی یہ آگ دهیرے دهیرے مهذب گهرانوں کو بهی اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے – اب پاکستان میں یہ بدتہزیبی اور عریانیت سماج کا حصہ بن چکی ہے – بعض شعبوں میں تو نوکری دلوانے کی شرط ہی بے پردگی اور بے حیائی ہے –

ہمارے معاشرے کا ہر وہ فرد جو ذرا سا بھی عقل وشعور رکهتا ہے , اور ہماری اپنی مشر قی تہذیب و ثقافت کا شیدائی ہے, اس حقیقت سے کبھی بھی آنکھیں نہیں چرا سکتا ہے کہ آج ہماری مروجہ تہذیب وثقافت خود ہمارے عطا کئے ہوئے خنجر سے ہی ہماری خود کشی کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس کی بہت ہی پہلے شاعر مشرق علامہ اقبال نے پیشبگوئی کرتے ہوئے یہ شعر کہا تها –

*تمہاری تہزیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
*جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا

آج ہمارے معاشرے میں علامہ اقبال کی پیشنگوئی سچ ثابت ہوتی دکهائی دے رہا ہے – آج ہمارا معاشرہ بے حیائی , بے راہ روی , بے اعتدالی , عریانیت , فحاشیت اور ننگے پن کے سمندر میں غرق ہوچکا ہے – ہمارے سماج میں بے شرمی کا بازار گرم ہے – اس ناپاک دلدل سے سماج کو نکالنا ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے –

۔مغرب نے پوری منصوبہ بندی کے ساتهہ ہمارے معاشرے پر حملہ کیا اور ہماری تہذیب وثقافت کو اپنے زبردست یورش ویلغار سے تاراج کردیا – آج ہماری خواتین کہیں تو تعلیم وتعلم کے نام پر تو کہیں سیر وتفریح کے بہانے، تو کہیں کسب معاش کی تلاش میں عریانیت اور فحاشیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہی ہیں – پورے جسم کو چهپانے والے مشرقی ملبوسات کو چهوڑ کر ٹی شرٹ کو زیب تن کرکے اپنی جوانی وحسن کے جلوے بکھیرنے میں اپنی عزت , شہرت اور عافیت تلاش کررہی ہیں – پاکستانی قومو بیدار ہوجاو ان بیماریوں سے اپنے معاشرے کو پاک کرنے کی کوشیش کرو اور اپنی کهوئی ہوئی تقدیر کو واپس لانے کی سعی کرو .

افراد کے هاتهوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے