بحری قوت اور تزویراتی تقاضے ۔ حصہ اول

خالق کائنات نے کرہ ارض کا وجودجس طرح تین حصے سمندر اور فقط ایک حصہ خشک قطعہ زمین سے مزین کیا،وہ کسی صورت حکمت سے خالی نہیں،یہ بھی حقیقت ہے کہ جن اقوام نے اِن حقائق کا من و عن ادراک کیا،تین حصے سمندر کی منطق کو سمجھا اور پھر اُس میں خالق کی نشانیاں تلاش کیں، اُن اقوام نے کرہ ارض پر راج کیا، یہاں بحری قوت کی مختصر تاریخ کا احاطہ کرنا ضروری ہے تاکہ سمندری حقائق کا ادراک کیا جاسکے۔

یونان، سپین ، ہالینڈ،برطانیہ ، پرتگال ،جرمنی ،جاپان ،روس اور پھر امریکہ جیسی ریاستیں وسلطنتیں اپنی بحری قوت کی بنیاد پردنیا کی تاریخ پر براجمان رہیں، اپنے اپنے ادوار ہر سلطنت اورریاست نے اپنی بحری قوت میں حد درجہ ترقی دیکر ہی دنیا کو تسخیر کیا۔

سپین کے ساحل پر پڑاﺅ ڈالنے والا طارق بن زیاد ہویا پرتگیزی کھوجی واسگوڈے گاما ،افریقی براعظم تک رسائی حاصل کرنے والا پرنس ہنری ہویامشرقی و مغربی بحرالکاہل کا پتہ دینے والاہسپانوی واسکو نونیز ڈی بالباﺅ یاامریکہ دریافت کرنے والا کرسٹو فر کولمبس ، سب کے سب سمندروں ،جہازرانی اور بحری قوت کے مرہون منت رہے۔

خود برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے باسیوں کا برطانوی سامراج کی سنگینوں میں عرصہ حیات تنگ ہوا تو سمندر اور ساحلوں کے راستے اور پھر90سالہ برطانوی دور پوری قوت کیساتھ پورے ہندوستان پر مسلط رہا ،بحری قوت نہ ہوتی تو جغرافیائی طور پرقلیل انگلستان ،وسیع و عریض ہندوستان پر قابض ہوسکتا تھا ؟شایدممکن نہ تھا ۔

یہاں بحری قوت کی ترقی میں یونان کا ذکر نہ کیا جائے تو تشنگی رہ جائیگی، یونان کی سرزمین نے نہ صرف ارسطو ، سقراط اور افلاطون کی صورت فلسفہ جیسے مادر عملی کی آبیاری کی بلکہ بحری بیڑے کی تشکیل اور بحری تجارت ودفاعی حکمت کو روشناس کرایا،جہازوںمیں تباہ کن توپوں کا استعمال شروع ہوا اور بحری جنگی حکمت عملی میں کئی گنا تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

ایشیاءمیں 300قبل مسیح میںچولا کی سلطنت نے بحری بیڑے کو اِس انداز میں پروان چڑھایا کہ سری لنکن جزائر، کادارام (برما،موجودہ میانمر) اور جنوب مشرقی ایشیائی خطوں پر مبنی تامل ریاست تشکیل دی۔

دنیا میں اسلام کے پھیلاﺅ میں بھی بحری قوت نے کلیدی کردار ادا کیا،649عیسوی میں خلیفہ حضرت عثمان غنی ؓکے دورہ خلافت میں اُن کے بھائی عبداللہ ابن سعدؓ نے نہ صرف پہلی منظم بحری قوت تشکیل دی بلکہ اُس وقت کی مضبوط ترین سلطنت روم کو کئی جنگوں میں شکست دیکربحری تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے ،پھر اسلامی سلطنت نے فارس(ایران)، خراسان(افغانستان)اور آرمینیا تک وسعت اختیار کی۔

بارہویںصدی میں چین میںسونگ سلطنت کے آخری ادوار میںجدید بحری بیڑے کی تشکیل ،پندرہوں صدی میں باربروسا پاشا کی بحیثیت کمانڈربحری فوج سلطنت عثمانیہ کیلئے فتوحات،سولہویں صدی سے یورپین ممالک خصوصاً سپین، پرتگال ،ہالینڈ،برطانیہ اورفرانس کابحری قوت کو نئے اور جدید خطوط پر استوارکیااور دنیا پر حکومت کی۔

سولہویں صدی میں دنیا کے سمندر وں میںلکڑی سے بنے بحری جہازوں کی جگہ دھاتی جہازوں نے لے لی ، جدید ترین بحری حقیقت کی داغ بیل ڈالنے میں فرانس اور برطانیہ کا کردار اور پھر دنیا میں امریکی جدیدتکنیکی مہارت کا جنم ۔۔۔ یوں دنیا میں سمندر تسخیر ہونے لگے۔

بحری سفرنے سیاحت ، معیشت ، دفاع ، سائنس وٹیکنالوجی ،تعلیم وتحقیقی مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کیا،سمندر میں دیو قامت جہازوں کی صورت قلعے اورآرام دہ بلندو بالا عمارتیں تیرنے لگیں،یہی نہیں جدید بحری قوت نے جنم لیا تو بحری افواج تباہ کن بحری جہازوں ، روائتی وجوہری آبدوزوں ، جہاز و ہیلی کاپٹر بردار جہازوںوغیرہ سے لیس ہوگئیں ۔

دوسری جنگ عظیم نے توبحری قوت کی اہمیت کو کئی گنا واضح کیااور بتا دیا کہ جوریاست بحری قوت کی ترقی اور جدت پر یقین رکھے گی ، وہی دنیا کی تجارتی ، معاشی ،کاروباری ، دفاعی حتیٰ کہ سیاسی اُمور پر دسترس رکھنے کے اہل ہوں گے اورمحدود بحری قوت رکھنے والی ریاستیں مضبوط ریاستوں کی مرہون منت رہیں گی ۔

قیام پاکستان کے بعد وطن عزیز کو بھی 1046کلومیٹر طویل ساحلی پٹی اور بحیرہ عرب کی صورت وسیع سمندر میسر آیا، ساحل و سمندر دونوں اقتصادی ، معاشی ،کاروباری اورتجارتی لحاظ سے ملکی بقاءو سلامتی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

کراچی میں کیماڑی اورپورٹ قاسم کی صورت دوبندرگاہیں اور مستقبل میں گوادراِسی اہمیت کی کڑی ہیں،پھر ایسا دستیاب سمندر جس کا حدود اربہ بھارت،ایران ، خلیجی ممالک،یمن و صومالیہ تک پھیلا ہو ، بین الاقوامی وعلاقائی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز ہو، ملکی 90فیصد تجارت کا ذریعہ ہو،تو ایسی صورت میں سمندر کی اہمیت کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اِن سب تاریخی وجغرافیائی حقائق ، تذویراتی (سٹریٹیجک)پہلوﺅں ،تجارتی ،اقتصادی و دفاعی مقاصدکیلئے قومی سطح پر ہمہ وقت چوکس اور انتہائی مضبوط بحری فوج کا ہونا لازم ہوگیا،یہاں یہ بھی حقیقت تھی کہ قیام پاکستان کا وقت نوزائیدہ ریاست کیلئے کسی امتحان سے کم نہیں تھا، ریاست پاکستان کوتقسیم ہند پرمحدودبحری اثاثوں کی دستیابی بڑا چیلنج بن کر اُبھرا۔

ماضی کی شاہی پاک بحریہ کو دستیاب اثاثوں میں محدود بنیادی ڈھانچہ ملا،معدوم تربیتی مراکز ، دو بادبانی کشتیوں،دو بحری جہازوں،بارودی سرنگوں کی صفائی کیلئے چار کشتیوں،چار ٹرالرز اور چار چھوٹی کشتیوں ،چند افسران و سیلرزکی موجودگی میں مضبوط بحریہ کا خواب ،جلد شرمندہ تعبیر ہونا کٹھن مرحلہ تھا۔

نومولودپاک بحریہ افرادی قوت کیساتھ ساتھ تکنیکی طور پر انتہائی کمزور اور متروک سامان حرب کی حامل تھی، ایسی صورتحال کسی صورت زمانہ امن و جنگ میں بحری خطرات سے نبرد آزما ہونے کیلئے یقیناخدشات سے پرُ تھی ، شاید تقسیم ہند کے وقت ایسی نیوی کی سپردگی کے پیچھے دشمن کے عزائم کچھ اور ہی تھے ۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے مارچ 1948ءمیں نومولودنیول اکیڈمی کے دورے پرتاریخی الفاظ میں بحریہ کی اہمیت کو واضح کیا،فرمایا ” آج پوری قوم بشمول نیوی کیلئے انتہائی پر مسرت موقع ہے کہ پاکستان اور ملکی شاہی بحریہ وجود میں آچکے،فخر ہے کہ نیوی کی کمانڈکر رہا ہوںاور آپ کی خدمت میں حاضر ہوں،آئندہ مہینوں میں یہ میری او ر آپکی( مشترکہ ذمہ داری ہے کہ نیوی کو انتہائی خوشحال اورمتحرک فوج میں تبدیل کریں(

بانی پاکستان نے بحری قوت کے فروغ کیلئے جس اہمیت کو اُجاگر کیا ، آنے والے مہینوں کیا، سالوں اور دہائیوں میں بھی اُس کاحقیقی ادراک نہ ہوسکا۔

گوکہ1949ءمیں چند تباہ کن جہازوں کی خریدار ی سے بحریہ کا حقیقی سفر شروع ہوا،1953ءتک بحریہ کا بنیادی ڈھانچہ قدرے بہتر ہوااور بحری اثاثوں میں سست روی ہی سہی لیکن اضافے کا رجحان دیکھا گیا،اِس عرصے تک بحریہ کوپہلی بنیادی ریاستی فوج کا درجہ حاصل تھاتاہم پھر اُمور یکسر تبدیل ہوگئے۔

باقی اگلی قسط میں

[pullquote]فیصل رضا خان ۔ [/pullquote]

ایوارڈ یافتہ صحافی ہیں اور نجی ٹی وی سے منسلک ہیں، 17 سالہ صحافتی زندگی میں انہوں نے قومی وبین الاقوامی سطح پرسفارتکاری، دفاعی اُمور، ماحولیاتی تبدیلیوں اور فنون لطیفہ پر تحقیقاتی رپورٹس کے ساتھ ساتھ کالم اور بلاگ بھی لکھے ہیں .
آئی بی سی اردو کی ٹیم انہیں خوش آمدید کہتی ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے