کرپشن کا ناسور،،،پولیس اور عدالتی امور

کرپشن ایک ایسا نا سور ہے جس کی جڑیں ترقی پذیر ممالک کی طرح اب ترقی یافتہ ممالک میں بھی پروان چڑھ چکی ہیں۔ کرپشن کا لفظ ہر زبان، ملک اورمعاشرے کے اندر منفی معنی میں آتا ہے۔ اس موذی مرض نے پاکستان کی سماجی، معاشی اور روحانی زندگی کو تبا ہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ معاشر ہ میں پیدا ہونے والے بگاڑ، بد امنی اور برائی کے خاتمہ کا انحصار ہمیشہ اخلاقی و معاشرتی ا قدار پرمنحصر ہوتا ہے۔ جن اقوام میں اخلاقیات ختم ہو جائیں اس معاشرہ کے اندر حقوق و فرائض نام کی کوئی چیز سلامت نہیں رہتی ہے۔
پاکستان میں کرپشن کی انڈسٹری بہت ہی منظم طور پر کام کر رہی ہے۔ دوسرے سرکاری اداروں کے ساتھ اب عدلیہ، پولیس اور قانون کے محافظ اداروں کے اندر رشوت، سفارش، اختیارات کاناجائز استعمال، ذاتی مفاد اور لو ٹ کھسوٹ کا بازار سر گرم ہے۔ سرکار کے ان خدمت گزاروں کو کسی کا ڈر و خوف نہیں ہے۔ان کے علم میں ہے کہ شہریوں کی شکایت کا ازالہ اور داد رسی کرنے والا کوئی نہیں۔ پاکستان میں احتساب کے نام پر صرف مک مکا اور مفا ہمتی پالیسی کا اصول لاگو ہے۔نیب اور احتساب سیل کے اندر کسی کی کرپشن پکڑ ی جائے تو اس کو بھی کرپشن سے دبا دیاجاتا ہے۔

کچھ سالوں پہلے مجھے کیس کے سلسلے میں راولپنڈی کچہر ی درجہ اول، دوئم مجسٹریٹ کے کورٹس میں تقریبا چار ماہ حاضر ہونا پڑا۔ میں نظام عدل کا سسٹم دیکھ کر شش و پنج میں پڑ گیا، ؑیہاں شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ قانون کے محافظ بخوبی طور پر انصاف کی قدر جانتے ہیں مگرشایدان کو شہریوں کی غربت،مفلسی، اور بے بسی کے اوپر رحم نہیں آتا ہے۔ مدعی، ملزم، اور گواہ سے ان کی رو داد سن کر قانون و انصاف کی قلعی پوری طرح کھل کر سامنے آ گئی۔ شہری اپنی مجبوریاں بیچ کر انصاف کی تلاش میں مدتوں عدالتوں کا چکرکاٹتے ہیں۔ انصاف کے حصول کی تلاش میں عرصہ دراز سے نسل در نسل کیسز زیر سماعت رہتے ہیں۔ وکلاء حضرات کی ہڑتالیں، عدالتوں کا بائیکاٹ، لاء چیمبرز کے مطالبات، وکلاء حقوق کے کنویشن کا آئے روز شور رہتا ہے۔عدالتوں میں کیسز کا ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر ہو نا، کیس کی تیاری، و کلاء کی تبدیلی ہونایہ روٹین کے عمل ہیں جس سے شہر یوں کا قیمتی وقت کے ساتھ پیسہ کا ضائع ہو تا ہے۔

جوڈیشنل سسٹم/ عدالتی نظام کے اندر ۰۸ فیصد مشینری کرپشن کی چھتری کے نیچے چل رہی ہے۔ مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے سب سے بڑا رول انوسٹی گیشن اداروں کا ہے۔ پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر کیس کو میرٹ کے مطابق انوسٹی گیٹ کرے اور سچائی کا پتا چلا نے کے بعد کیس کو قانون میں درج قواعد کی روشنی میں فائل کرے۔ پولیس بھی اس کرپٹ نظام کاحصہ ہے سیا سی اثرورسوخ، سفارش، رشوت ذاتی مفادات کی ترجیحات یہ وہ تمام کرپشن کے عناصر ہیں جنہو ں نے آئین و قانون کی دھجیاں بکھر کر رکھ دی۔ مدعی کی درخواست کو اندراج کرنے سے پہلے پولیس اچھی طرح چھان بین کرتی ہے کہ کیس کے اندراج کے بعد ان کو سینئر یا ہائی اتھارٹی سے ذلت و رسوائی کے ساتھ ساتھ کورٹ کے سامنے بھی کسی قسم کی پریشانی نہ اٹھانا پڑے: ۱) مدعی کا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق یاواسطہ ہے؟ ۲) حکومتی شخصیت یا سرپرستی کی بیک حاصل تو نہیں؟ ۳) مدعی کی مالی پوزیشن کیسی ہے؟ ۴) مدعی کا کسی جرائم پیشہ گروہ سے تعلق رکھتا ہے؟

مدعی تمام خوبیوں سے پاک ہو تو نامزد پارٹی سے رابطہ کیا جاتا ہے ان کو بھی اسی زاویے سے پرکھنے کے بعدکیس کا اندراج شروع ہوتا ہے۔ جس پارٹی کا پلڑا بھاری ہو کیس کا اندراج اس کے حق میں ہوتا ہے۔ کمزور پارٹی کو ڈرا دھمکا کر درخواست واپس لینے پرمجبور کیا جاتا ہے یا کیس کو اتنا کمزور اور لاغر بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دو پیشی میں ہی ختم ہو جا تا ہے۔ پولیس کے محکمہ کے اندر بڑے پیمانے پر سرجری کی سخت ضرورت ہے تاکہ وہ تمام کالے ناگ، سپولے جن کی وجہ اس ادارہ کا جنازہ نکل چکا ہے جو صرف اس کو کرپشن کی فیکٹری سمجھتے ہیں ان سب کو عبرت ناک سزا دی جائے لیکن یہ کرے گا کون۔ یہی وجہ ہے شہریوں کا اعتماد ا ن پر ا س قدر گر چکا ہے، شہری جرائم ہونے کے بعد تھانے میں پولیس کے سامنے رپورٹ نہیں درج کرواتے کیونکہ شہری وہ جانتے ہیں اس سے کچھ حاصل وصول نہیں۔ الٹا اپنا وقت، پیسہ برباد کرنے کے ساتھ نئی پریشانی میں مبتلا ہو نا پڑے گا۔
کیس کے اندراج کے بعد مجر م کی گرفتاری عمل میں لائی جا تی ہے، پولیس اور انوسٹی گیشن اپنی تفتیش، گواہ اور مجرم کے بیان کے ریکارڈ کو عدالت کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ہر مدعی اور ملزم کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے کیس کیلئے ا یسے وکلاء حضرات کوچنا جائے جس کا نام، قد اور شہرت کے ساتھ ساتھ اس کے اچھے تعلقات کی بھی باز گشت ہو۔ یہ ہمارے لئے لمحہ ہ فکریہ ہے کہ مدعی ملزم کو سزا دینے کے لئے اور ملز م خود کو سزا سے بچنے کے لئے وکلاء حضرات کی خدمات حاصل کرتا ہے۔ہر کیس کے اندر ملزم کو مجرم اور مجرم کو رام کرنے کے لئے قانون کے رکھوالے ہی ایسی تشریحات،بیانات اور تحریریں سمجھاتے ہیں جس سے پورے کیس کی کہانی اور مفہوم ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔عدالت کے سامنے کیس کی سماعت سے کاروائی کا آغاز ہو تا ہے دونوں اطراف کے وکلاء اپنے دلائل دیتے ہیں جس کی بناء پر سزا و جزا کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ججز قانون کی عینک پہن کر ہر زاویہ سے کیس کا جائز ہ لیتے ہیں اگر عینک کا نمبراور شیشہ دونوں ٹھیک ہوں گے توملزم کو مجرم ثابت کیا جا تا ہے، بصورت دیگروہ با عزت بری ہو کر واپس جرائم کی دنیا میں اپنے کھیل میں مگن ہو جائے گا۔ ہمارے عدالتی نظا م کے اندر کرپشن کا ہونا کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

عدالت کے کورٹ میں منشی، چپڑاسی، ریڈر، یہ سب چھوٹے آلہ کار ہیں جو صبح سے شام تک بہت ہی مہارت سے اپنی ڈیوٹی میں مصر وف عمل نظر آتے ہیں یہ عدالت کے سیف کی چابیاں ہیں جن کے کنڑول میں عدالت کا سار ا ریکاڈ ہوتا ہے شاید ا س لئے شہری کو مجبوراً ان کو نذرانہ، تعاون، چائے اور پانی کی مد میں خدمت کرنی پڑتی ہے عدالت کی تمام کاروائی، بیان کی نقل، فائل کی کاپیاں، کیس کی تاریخ، وقت کا تعین کرانے کے لئے قائد اعظم کے اصول و فرمودات نہیں بلکہ قائد کی ٹوپی والا کاغذہونا ضروری ہے ورنہ کیس کا چلنا ممکن ہی نہیں۔

ا قدا م قتل، تاوان، دہشت گری، بھتہ خوری، زمین پر قبضہ، گھریلو نا چاقی، لین دین سمیت دیگر جرائم کے لئے ہر کیٹگر ی کے وکلاء حضرات کے چمبرز موجود ہیں جو صرف اپنی پریکٹس کو چمکانے کے لئے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرتے ہیں۔ ایک لمبی جدوجہد کے بعد یہی وکلاء حضرات قانون و انصاف کا حلف لینے کے بعد مختلف عدالتوں میں جج کی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں فرائض منصبی انجام دیتے ہیں۔وہ اپنے ماضی کی پریکٹس، تجربہ اور دانش وری کی بناء پر ہر کیس کی سچائی کو جانتے ہیں لیکن قانون کا اختیار ہونے کے باوجود قانون کی کتاب کے آگے بے بس ہوتے ہیں۔

آج کی مثال ڈالرگرل ایان علی جو قانون کے سامنے ہوتے ہوئے بھی قانون سے کھیل رہی ہے۔ قا نون ہی نے اس کو پکڑا، عدالت کے سامنے ثبوت پیش کئے،لمبے عرصے تک تک تحقیقات ہوئی، قانون نے پہلے ملزمہ کو ضمانت پر رہا کر دیا، موصوفہ کیس کی تاریخ پرحاضر واک پیش کرکے چلی جاتی ہیں۔ یہی حال ہمارے سیاست دانوں، بیورکریٹ، ججز اور جرنلروں کا ہے، جس کا جتنا داؤ لگا اس نے لسی میں پانی ڈالا، ملک کے وسائل کو خوب لوٹا، کرپشن، رشوت، کمیشن کے ساتھ بیرون ممالک جائدایں بنائی، اکاؤنٹ کھولے۔جب ملک کے چلانے والے ہی ایسے گھناؤنے ا فعال کے مرتکب ہوں گے تو کس طرح ایک عام شہری اپنے حقوق و فرائض ادا کرے گا۔

عدالتی سسٹم اور قانون نافض کرنے والے ادارے مذاق بن چکے ہیں ہم سب کو اپنے لیول پر اس سسٹم میں کرپشن کے راستہ کو رکنا ہے۔یہ دنیا عارضی ہے ہم سب کو مرنے کے بعد اللہ کے عدالت میں پیش ہونا ہے اس وقت کوئی سفارش اور اپروچ نہیں چلے گی۔ سزا و جزا کا فیصلہ ہمارے اعمال کی بنیاد پر ہو گا۔ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو جگائیں اور امانت داری، فرائض شناسی، جذبہ حب الوطنی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو انجام دیں۔ توبہ کے دروازے اللہ کے حضور ہمہ وقت کھولے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے