شعراء ہمارا قومی اثاثہ ہیں اور ہم بفضل خدا ان سے ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ کالج کے زمانے کی بات ہے ہمارے اردو کے پروفیسر ڈاکٹر راحت علی شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ شاعر معاشرے کا حساس ترین انسان ہوتا ہے جس پر راقم نے فوراً کہا "جب بات شعر کی بجائے شاعرہ کی ہو”۔
آج کل فیس بک پر بھی شاعروں کا دور دورہ ہے اتنے شاعر داغ دہلوی اور جگر مراد آبادی کے دور میں بھی نہیں ہوتے تھے جتنے فیس بک کے شاعری گروپ میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ شاعر اتنے قابل ہوتے ہیں کہ قافیہ اور ردیف کے معنی بھی جانتے ہیں۔ باقی شعراء ان سے زیادہ علم رکھتے ہیں اس لئے قطعہ اور رباعی کے درمیان فرق پوچھے جانے پر اس انداز میں مسکرا دیتے ہیں جیسے ان سے "بچوں والا سوال” پوچھ لیا گیا ہو۔
یہاں کچھ نامور شعراء علم عروض کے بہت "پکے” ہیں چند ماہ آگے کی بات ہے کسی گروپ میں شعر کمنٹ کرنے پر ایک شاعر فوراً انبکس میں تشریف سمیت آئے اور آتے ہی اپنا کیس یوں فائل کروایا "حضور آپ کے شعر کا دوسرا مصرع وزن میں نہیں ہے”۔ جواب میں ان شاعر کو یہ کہہ دیا کہ
"میر تقی میر حیات ہوتے تو آپ کی طرف سے میں خود ان کو اس شعر کی درستی بارے آگاہ کرتا”، ساتھ میں دیوان میر کا سکرین شاٹ بھی دیا۔ اسکے بعد اس شاعر نے مجھے بلاک کر دیا اور اس واقعے سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ واقعی "شاعر معاشرے کا حساس ترین انسان ہوتا ہے”۔
شعراء کی کئی قسمیں ہیں جیسے شعر کہنے والے شاعر، شعر بولنے والے شاعر، شعر بنانے والے شاعر اور شعر بگاڑنے والے شاعر۔ ان کے علاوہ اور قسم کے شاعر بھی ہوتے ہیں جنہیں پر شعر بھی ایسے ہی نازل ہوتے ہیں جیسے تیسری دنیا پر آسمانی آفت ۔ ان شعراء کا مختصر احوال پیش خدمت ہے ۔
شعر کہنے والے شاعر اپنے کام میں اتنے پکے ہوتے ہیں کہ کبھی کبھار دوران گفتگو جب سامع "واہ واہ ” کہتا ہے تو موصوف کو اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی ابھی شعر ہوا ہے۔ ایسے وقت میں اس قسم کے شاعر کمال مہارت سے "آداب آداب” کہتے ہوئے اپنا کہا ہوا آفاقی (اتفاقی) شعر یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کبھی کبھی یاد بھی آ جاتا ہے۔ ان کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جب کبھی فرمائشی شاعری کا کہا جائے تو اپنی سستی چھپانے کے لئے کہتے ہیں "شعری کیفیت آنے کا انتظار ہے”۔
شعر بولنے والے شاعروں کی آدھی زندگی پرانی کتابوں کے اسٹال سے ان غیر معروف شعراء کے دیوان ڈھونڈنے میں گزرتی ہے جن کا تخلص ان کے تخلص کا ہم وزن ہو۔ باقی آدھی زندگی وہ اپنے کلام کے دفاع میں گزارتے ہیں۔ ایسے شاعر کبھی کبھی کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور ٹی وی پر پروگرام کرنے لگتے ہیں۔
شعر بنانے والے شاعر، شعراء کی سب سے خطرناک قسم ہیں ان شعراء کا ہاتھ عروض پر ایسا صاف ہوتا ہے جیسے کسی اچھے انجنیئر کا لیتھ مشین پر۔ یعنی ان سے وزن میں ایک ایم ایم mm کی غلطی بھی نہیں ہوتی۔ انہیں اصل مشکل تب پیش آتی ہے جب شعر بننے کے بعد لوگوں سے اس کے ممکنہ معنی پوچھتے ہیں۔ اگر دو تین افراد الگ الگ تشریح بتا دیں ہیں تو مشاعروں میں بڑے فخر سے "الہامی اشعار” کے زیل میں اسے سناتے ہیں۔ شعراء کی یہ قسم خطرناک اس لئے ہے کہ ان کے بنائے گئے اشعار کے دیوانے جوگیوں کی طرح ایسی تشریحات سے لائبریریاں بھرنے کا کام کرتے ہیں ، جو خود کبھی شاعر نے بھی نہیں سوچیں ہوتیں۔
شعر بگاڑنے والے شعراء سے سب سے زیادہ تکلیف احمد فراز کو ملی۔ علامہ اقبال کے محمود و ایاز والے شعر کو انہی شعراء نے مشہور بنایا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے مشہور اشعار انہی کے مرہون منت ہیں۔ یہ شاعری سے لطف لینے والی مخلوق ہے اور راقم کسی بھی طور یہ نہیں مانتا کہ ان کا صریر خامہ کوئی نوائے سروش نہیں ہے۔ ان کے خیالات بھی غیب سے آتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ عالم غیب میں جنت کے ساتھ ساتھ جہنم بھی موجود ہے۔
شعراء کی آخری قسم وہ ہے جن پر اشعار آفت کی طرح نازل ہوتے ہیں۔ یہ اس ناگہانی آفت سے بے طرح بوکھلا جاتے ہیں اور فوراً انٹرنیٹ پیکج کروا کر دوستوں کے اعصاب کا امتحان لیتے ہیں ۔ ٹیگ کا طوفان تھمنے کے بعد بھی جب دو تین افراد ہی دل پر پتھر رکھ کر واہ واہ کہتے ہیں تو شاعر کا آخری داؤ یہی ہوتا ہے کہ :
"استغفراللہ!! کیا ناقدردانوں کی محفل ہے”
مجھے لگتا ہے کہ الطاف حسین حالی نے بھی خواب میں جدید شعراء کو پڑھ کر ہی مسدس میں لکھا کہ "جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے” ۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ شعراء کو قائم و دائم رکھے کیونکہ غالب فرما گئے ہیں کہ
موت سے پہلے آدمی "غم” سے نجات پائے کیوں۔۔