ملا منصور کو کیوں قتل کیا گیا ؟

افغان طالبان کےامیرملااخترمنصور21مئی کوپاکستانی سرحدی علاقےاحمدوال میں امریکی ڈرون حملےمیں شہیدہوگئےہیں۔اپنےپیش روکی طرح آپ بھی ہمیشہ عالمی استعمارکےخلاف جدوجہدکاعظیم استعارہ رہیں گےکہ جنہوں نےوقت کی سپرپاورکوامن اورمحفوظ راستےکی بھیک مانگنےپرمجبورکردیااورافغان سرزمین کی آزادی وخودمختاری کی تحریک جاری رکھی۔امریکہ،افغانستان اورپاکستان نےسرکاری سطح پراس واقعےکی تصدیق کی ہےجبکہ طالبان راہنماملاعبدالرؤف اورخاندانی ذرائع نےبھی ملااخترمنصورکی شہادت کی تصدیق کی ہے۔طالبان کی شوریٰ کااجلاس بھی جاری ہےجس میں نئےسربراہ کاچناؤکیاجائےگا۔

ملااخترمنصورامیر المجاہدین ملامحمدعمرکی وفات کےبعدسےطالبان کی قیادت کررہےتھے۔ملاعمرکی وفات قریباََ2013میں ہوئی جسےطالبان راہنماؤں نےمخفی رکھا۔اس دوران ملااخترہی طالبان کی قیادت کرتےرہےاورعیدین کےموقع پرملاعمرکےنام سےہی پیغام جاری کرتے رہے۔ان پیغامات میں انہوں نےطالبان کوہدایات دینےکےساتھ ساتھ دنیاکواپنی تحریک کےمقاصدواہداف سے متعلق بھی آگاہ کیا۔انہوں نےطالبان کی جدوجہدکامقصدبیرونی عناصرسےجنگ،افغانستان کی بقاءوآزادی بتایا۔لڑکیوں کی تعلیم اورتعلیمی اداروں کےتحفظ کااعادہ کیااورپاکستان سمیت کسی بھی ملک کےآلہِ کارہونےکی تردیدکی۔ان کےعہدِامارت میں طالبان میں بہت سی مثبت تبدیلیاں رونماہوئیں جن سےیہ اندازہ ہوتاہےکہ طالبان محض ہٹ دھرمی اورضدپراڑےرہنےوالےفرسودہ لوگ نہیں بلکہ عالمی وعلاقائی تبدیلیوں کےلحاظ سے اپنی پالیسیاں بدلتےرہتےہیں۔

ملااخترمنصورنےطالبان کوعالمی طاقتوں سےمذاکرات پرآمادہ کیا،قطردفترکھول کر بااختیارکمیٹی بنائی اورمذاکرات شروع کئے۔طالبان دورِحکومت میں بامیان کےبُتکدے پرحملےکےبعدچین سےتعلقات خراب ہوئے،آپ نےچین سےدرِپردہ تعلقات قائم کئےاورچین کی قیامِ امن کی کوششوں کامثبت جواب دیا۔مری میں چین،پاکستان،افغابستان اورامریکہ کے نمائندوں کےساتھ مذاکرات شروع کئے۔اسی دوران افغان انٹیلی جنس اورحکومت نےیہ خبرپھیلادی کہ ملاعمر2013میں انتقال کرگئےتھےاس خبرکےمنظرعام پرآنےسےطالبان کودھچکالگا۔طالبان میں پھوٹ پڑگئی اورامارت کے2,3امیدوارسامنےآگئےباہمی مشاورت ہوئی مگربات نہ بن پائی جس سےدودھڑے وجودمیں آگئے۔ایک طرف ملااخترمنصوردوسری طرف ملاعبدالقیوم ذاکروغیرہ تھے،کچھ جگہوں پرباہمی جنگ
بھی ہوئی۔

یہ صورتحال جاری تھی کہ”داعش”افغانستان میں آن موجودہوئی اورملااخترمنصورکےخلاف پروپیگنڈاشروع کردیاکہ یہ پاکستان کےساتھ مل کرامریکہ سےسازبازکرنےجارہےہیں۔ملااخترمنصورنےان خبروں کی تردیدکرتےہوئےمذاکرات کی بجائےجنگ کااعلان کیااوراپنےدھڑےکومضبوط کیا۔ملاعمرکےانتقال کےبعداختلافات سامنےآنےپرعالمی طاقتوں نےیہ تاثردیناشروع کیاکہ طالبان کمزورپڑرہےہیں،اس تاثرکوزائل کرنےکےلئےملااخترمنصورنے کابل،قندھاراورکئی اہم مقامات پربڑےحملےکئے۔اس سےایک طرف عالمی طاقتوں کاپروپیگنڈادم توڑنےلگاتودوسری طرف داعش کاپروپیگنڈابھی بےاثررہااورملااخترکےگروپ کوخاصی تقویت ملی۔دوسری طرف طالبان نےایران سےتعلقات بہترکئےباوجوداس کےکہ طالبان حکومت کےخاتمےمیں ایران کاکرداررہااورنظریاتی خلیج بھی موجودہے۔ایران سےتعلقات کی بہتری اس لئےضروری تھی کہ ایران داعش مخالف تھااورطالبان کوبھی داعش سےخطرات تھےوہ چاہتےتھےکہ داعش کوافغانستان میں ٹکنےنہ دیاجائے۔

پاکستان کےساتھ طالبان کےتعلقات میں اتارچڑھاؤرہااس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان حدسےزیادہ ہی طالبان سےامیدیں وابستہ کئےہوئےتھاکہ وہ پاکستان کےزیرِاثرہیں اورمذاکرات کےلئےاس کےکہنےپرتیارہوجائیں گے۔مگرطالبان نےملاعمرکےانتقال کی خبرکےمنظرِعام پرآنےکےبعدمذاکرات ختم کردئےجوکہ تاحال شروع نہیں ہوسکے۔گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نےدھمکی آمیزلہجےمیں طالبان کوپیغام دیاکہ وہ مذاکرات کےلئےتیارہوں یاپھرعبرتناک انجام کےلئے۔اس بات کاکچھ مثبت جواب یہ ملاکہ طالبان وفدنےپاکستان کادورہ کیااورمذاکرات کےحوالےسےبات چیت ہوئی مگرکوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی جس کااظہارسرتاج عزیزصاحب نےکیاکہ’’طالبان نےمذاکرات کی کوششوں کامثبت جواب نہیں دیا۔‘‘افغان طالبان نےپاکستان میں ہونےوالےبڑےدہشتگردی کےواقعات پرہمیشہ مذمت کی،آرمی پبلک سکول میں حملےپربھی گہرےدکھ کااظہارکیا۔پاکستانی طالبان سےکئی بارلاتعلقی کااعلان بھی کیااورانہیں یہ دعوت بھی دی کہ وہ پاکستان میں لڑنےکی بجائےافغانستان آکرغیرملکی تسلط کےخلاف لڑیں۔پاکستانی طالبان اورحکومت کےدرمیان مذاکرات کےموقع پربھی ملاعمرکےنام سےجاری ایک خط میں پاکستانی طالبان کوپاکستان میں کارروائیاں روکنےکی تلقین کی۔طالبان ترجمان کابارہ کہومیں پراسرارقتل،طالبان راہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ اورگرفتاری پرانہیں پاکستان سےشکوہ رہاہے۔مگردونوں طرف سےکوئی حتمی قدغن نہیں لگائی گئی بلکہ معاملات کوبہترکرنےکی کوششیں برابرجاری رہیں ۔

چندروزپہلےہی اسلام آبادمیں ایک بارپھر4ملکی نمائندوں کااجلاس ہواجس میں مذاکرات کوہی افغانستان کے مسئلے کاواحدحل بتایاگیامگراب ملااخترمنصورکی شہادت کے بعدطالبان کس رخ پرجاتے ہیں یہ کہناقبل ازوقت ہوگا۔پہلےمذاکرات شروع ہوئےتوملاعمرکےانتقال کی خبرمنظرِعام پرلائی گئی جس سےمذاکرات تعطل کاشکارہوئےاب پھرمُلااخترمنصورکی شہادت حالات کومزیدبگاڑ کی طرف لے جائے گی۔داعش کی آمدکے بعدطالبان کامذاکرات جاری رکھناناممکن ہوگیاتھاکیوں کہ اگرطالبان مذاکرات جاری رکھتےتوناراض لوگ داعش کےساتھ جاملتے۔

داعش کی مضبوطی کااثرجہاں افغانستان پرپڑتاوہاں پورےخطےپر اورخصوصاََ پاکستان پربھی پڑتاکیوں کہ داعش اس وقت جن علاقوں میں منظم ہورہی ہےوہ پاکستانی سرحدکےقریب ترہیں۔اس خطرےکوبھانپتےہوئےملااخترمنصورنےمذاکرات کےامکانات کوردکرتےہوئےبھرپورکارروائیاں جاری رکھیں،طالبان اس وقت افغان فورسز ،اتحادی افواج اورداعش کےخلاف ایک ساتھ ہی لڑرہےہیں۔مذاکرات سےانکارکی ایک وجہ غیرملکی افواج کی موجودگی جبکہ طالبان کااہم سوال یہ بھی ہےکہ مذاکرات کےحوالےسےافغان انتظامیہ کتنی بااختیارہے۔؟افغان انتظامیہ کےاختیاراورغیرملکی افواج کی موجودگی پرتوبات چیت کی گنجائش ہےمگرداعش کی موجودگی مذاکرات کی تنسیخ کااہم نقطہ ہے۔کیوں کہ طالبان کسی بھی صورت داعش کے وجودکوبڑھنےنہیں دیناچاہتےجواسی صورت میں ممکن ہےکہ وہ جنگ جاری رکھیں۔

ایک طرف امریکہ وافغان انتظامیہ پُرجوش ہیں کہ انہوں نےامن عمل کی اہم ’رکاوٹ‘ کوراستےسےہٹادیاہےتودوسری طرف پاکستانی میڈیاحسبِ معمول شاہسےزیادہ شاہ کے وفادارہونےکاثبوت دیتےہوئےوہی زبان بول رہاہےجوجان کیری نےبولی کہ ملااخترمنصورکےجانےسےامن عمل پرمثبت اثرپڑےگا۔پرنٹ والیکٹرانک میڈیانےاسی بات کوہی آگےبڑھایاکہ ملااخترمنصورایک امن دشمن شخص تھے،انہوں نےمذاکرات کوسبوتاژکیااورامن کی بجائےجنگ کوترجیح دی۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ انہی کے عہدِ امارت میں طالبان نےعالمی حالات کےتقاضوں کومدِ نظررکھتےہوئےاپنی پالیسیوں میں مثبت تبدیلیاں کی ہیں۔چین ،ایران سےتعلقات کوبہترکیااورپاکستان سےتعلقات میں کوئی بڑی رکاوٹ نہ آنےدی۔انہی کی پالیسیوں کےسبب داعش جیسی وحشی تنظیم افغانستان اورپاکستان میں کوئی مضبوط ٹھکانہ نہیں بناسکی وگرنہ یہ خطہ اس جیسی تنظیموں کےلئےہمیشہ اہم رہاہے۔

ملااخترمنصور نےبارباراپنےپیغامات میں یہ واضح کیاکہ ہم افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں ہماراافغان سرزمین کےعلاوہ کسی بھی ملک کی سرحدوں کوپامال کرنےکاقطعی ارادہ نہیں ہےاورنہ ہی ہم کوئی عالمی ایجنڈارکھتےہیں۔ان سب مثبت تبدیلیوں کاسہرایقینی طورپرملااخترکےسرپرسجتاہےکہ انہوں نےاپنےساتھیوں کواس سب کےلئےتیارکیا۔پاکستانی میڈیااورریاست کویہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئےکہ طالبان اس وقت افغانستان کی ایک اہم قوت ہیں اوران کےبغیرافغانستان میں قیام امن کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ہمیں مستقبل کوسامنےرکھتےہوئےمثبت سوچ کےساتھ آگےبڑھناہے۔امریکہ اورعالمی طاقتیں امن نہیں چاہتیں بلکہ وہ طالبان کوکمزورکرکےداعش کومتبادل کےطورپرہمارےسرپربٹھاناچاہتی ہیں۔ ہمیں اس سب سےہوشیاررہتےہوئےافغانستان کےحوالےسےسنجیدہ اورملکی مفادمیں پالسی بنانی چاہئے۔ہمیں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئےکہ طالبان کوڈرادھمکاکرمذاکرات کی میزپرلانےکاکوئی جوازنہیں نہ ہی اس طرح دباؤمیں آکروہ ہماری بات مان لیں گےبلکہ اس سےہمارےاوران کےدرمیان دوریاں بڑھیں گی جومستقبل میں ہمارےلئےچیلنج بن سکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے