زنا کےمتعلق پاکستانی قانون کےتضادات

[pullquote]زنا کے متعلق پاکستانی قانون :اصولی تضادات کا شاہ کار [/pullquote]

انگریزی رواجی قانون (common law) کے تحت مرد و عورت کے درمیان غیرقانونی جنسی تعلق کی دو قسمیں تھیں : adultery اور rape۔ جب ہندوستان میں انگریزوں نے مسلمانوں کا فوج داری قانون ختم کرکے 1860ء میں مجموعۂ تعزیراتِ ہند دیا تو ان دونوں جرائم کو اس میں شامل کیا گیا اور اردو ترجمے میں adultery کو "زنا بہ زنِ غیر” اور rape کو "زنابالجبر” کہا گیا ۔ (واضح رہے کہ اس قانون سے قبل مسلمانوں کے ہاں زنا بزن غیر یا زنا بالجبر کی اصطلاحات رائج نہیں تھیں ۔ )

انگریزی رواجی قانون کی رو سے زنا بالجبر مطلقاً جرم تھا، جب کہ زنا بہ زنِ غیرکو جرم کے بجاے شوہر کے ازدواجی حق کے خلاف اقدام (tort against marital right) سمجھا جاتا تھااور اس لیے اس پر نجی حق (private right) کی خلاف ورزی کے اثرات مرتب ہوتے ۔ اگر دو غیر شادی شدہ افراد زنا کا ارتکاب کرتے تو اس فعل کو fornication کہا جاتا تھا جسے خواہ بعض افراد اخلاقی برائی سمجھتے لیکن قانون کے تحت یہ جرم نہیں تھا۔
ہندوستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر انگریزوں نے مجموعۂ تعزیرات ہند میں زنا بالجبر کے ساتھ ساتھ زنا بہ زنِ غیر کو بھی جرم قرار دیا تھا، لیکن اس جرم پر فوج داری کارروائی شروع ہونے کے لیے ضروری تھا کہ شوہر اس جرم کی شکایت کا اندراج کروائے؛ اس کی وجہ یہی تھی کہ انگریزی رواجی قانون کے اصولوں کے تحت اس فعل کو شوہر کے حق کے خلاف اعتدا سمجھا جاتا تھا۔ چناں چہ اس جرم کو”ازدواجی تعلق کے خلاف جرائم “ کے باب میں رکھا گیا تھا۔ یہ قانون پاکستان میں حدود قوانین کے نفاذ تک رائج رہا۔

حدِ زنا آرڈی نینس نے اس قانون میں تبدیلی کرکے زنا بالرضا کی تعریف میں fornication کو بھی شامل کرلیا اور پھر زنا اور زنا بالجبر، میں سے ہر قسم کو دو قسموں، مستوجبِ حد اور مستوجبِ تعزیر،میں تقسیم کیا۔ ”زنا بالجبر مستوجبِ حد “کے لیے وہی معیار ثبوت مقرر کیا گیا جو ”زنا مستوجبِ حد “کے لیے ہے، یعنی مجرم کا اقرار یا چار مسلمان مردوں کی عینی شہادت۔

اس قانون پر بہت زیادہ اعتراضات ہوئے اور بالآخر ”قانون تحفظ نسواں ۲۰۰۶ ء “نے حدِ زنا آرڈی نینس سے زنا بالجبر کے متعلق تمام دفعات ختم کرکے تعزیرات پاکستان کی دفعات ۳۷۵ اور 376 (زنا بالجبر کی تعریف اور سزا) کا احیا کیا، البتہ اپنے دوسرے جنم میں دفعہ ۳۷۵ پہلے جنم سے کچھ مختلف ہے؛ چنانچہ ایک طرف تو اس جرم کو مردوں کے ساتھ خاص کیا گیا۔ اصل دفعہ ۳۷۵ میں، جسے انگریزوں نے وضع کیا تھا، یہ جرم کو ئی بھی شخص کسی بھی دوسرے شخص کے خلاف کرسکتا تھا۔ اب نئی دفعہ ۳۷۵ کے تحت یہ جرم کوئی مرد کسی عورت ہی کے خلاف کرسکتا ہے۔ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ اصل دفعہ ۳۷۵ میں شوہر کو استثنا دیا گیا تھا، جب کہ نئی دفعہ ۳۷۵ میں یہ استثنا ختم کردیا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر، تعزیرات پاکستان میں اب Marital Rape ("ازدواجی زنابالجبر” ) نامی جرم بھی وجود میں آگیا ہے۔ بیوی کے ساتھ زبردستی مباشرت کا ارتکاب چاہے ناپسندیدہ عمل ہو، اور چاہے بعض صورتوں میں اسے قابل تعزیر بھی قرار دیا جاسکے، مگر کیا اسلامی قانون کی رو سے اسے زنا بالجبر قرار دیا جاسکتا ہے ؟

دوسری طرف قانونِ تحفظِ نسواں ۲۰۰۶ ء نے حدِ زنا آرڈی نینس سے تعزیرات کے متعلق تمام دفعات ختم کرکے ان میں سے اکثر کو تعزیراتِ پاکستان میں جگہ دے دی ہے۔ اس بات پر اصولاً کوئی بڑا اعتراض شاید نہ کیا جاسکے، لیکن اس کوشش میں ایک نہایت دور رس نتائج کی حامل ترمیم بھی کی گئی ہے؛ چنانچہ تعزیرات پاکستان میں دفعہ ۴۹۶۔ ب کا اضافہ کرکے fornication کا جرم تخلیق کیا گیا ہےاور طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ تعریف "زنا بہ زنِ غیر "یعنی adultery کو بھی شامل ہے کیوں کہ یہ وہی تعریف ہے جو حدِ زنا آرڈی نینس کی دفعہ ۳ کے تحت زنا کی ہے۔ گویا ایک ہی جرم اب دو مختلف قوانین کے تحت قابلِ سزا ہے ۔

بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے، بلکہ ان دونوں قوانین کے تحت جرم کے اثبات کے طریقِ کار اور سزا میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ پس زنا کے جرم کے اثبات کے لیے چار مسلمان عینی گواہوں کی ضرورت ہے، جب کہ fornicationکے جرم ( جو وہی ایک جرم ہے ) کے اثبات کے لیے دو عینی گواہوں کی ضرورت ہے جن کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔ زنا کا جرم ثابت ہوجائے تو مجرم کو حد کی سزا ( سو کوڑے یا رجم ) دی جائے گی، جب کہ fornication کا الزام ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو پانچ سال تک قید اور پانچ ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ زنا کا الزام غلط ثابت ہونے کی صورت میں الزام لگانے والے کو حدِ قذف کی سزا ( اسی کوڑے ) دی جائے گی، جب کہ fornication کا الزام غلط ثابت ہونے کی صورت میں الزام لگانے والے کو پانچ سال تک قید اور پانچ ہزار روپے تک جرمانے کی سزا دی جائے گی۔ زنا کے مقدمے میں اپیل وفاقی شرعی عدالت کو، جب کہ fornication کے مقدمے میں اپیل ہائی کورٹ کو کی جائے گی، گویا اب ایک ہی فعل پر دو مختلف قوانین کا انطباق ہوتا ہے اور ایک ہی فعل کے بالکل مختلف نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس سے کچھ اندازہ ہوجاتا ہے کہ دو مختلف نظام ہاے قوانین کے اصولوں کو یک جا کرنے کے کیا خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔

قانون بنانے والوں نے تو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ انگریزی قانون کی روسے مرد و عورت کا جنسی تعلق تب جرم بنتا ہے جب اس میں ایک فریق کی رضا شامل نہ ہو ، جبکہ اسلامی قانون کی رو سے رضا کی موجودگی کے باوجود یہ جرم ہوگا اگر نکاح کے بغیر یہ تعلق قائم کیا گیا ۔ غور کریں کہ اس فرق کی وجہ کیا ہے ؟ یہ معمولی فرق نہیں ہے بلکہ انگریزی اور اسلامی قانون کے اساسی اختلاف کی وضاحت کرتا ہے۔

[pullquote]قرآن میں "زنابالجبر” کی "مقررہ سزا” کیوں نہیں ہے؟[/pullquote]

ایک محترم دوست نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اسلا می قانون کے بنیادی ماخذ قرآن میں ریپ کو بطور علاحدہ جرم اور اس کی واضح متعین سزا ندرج نہ ہونے کی کیا وجہ یا حکمت ہو سکتی ہے ، جب کہ با لرضا کو صراحتا جرم اور اس کی متعین سزا درج ہے ، خاص طور پر جب کہ بادی النظر میں بالجبر بالرضا سے زیادہ سنگین نوعیت کا جرم معلوم ہوتا ہے اور اس ضمن میں یہ بھی پیش نظر رہے کہ ریپ کا جرم کوئی نیا نہیں بلکہ قدیم دور سے ہی چلا آ رہا ہے تو یعنی ایسا بھی نہیں کہ اسلام کے آمد کے زمانہ میں دنیا ریپ کے عمل سے ، اس کے تصور اور اس کے وجود ہی سے ناواقف تھی۔

میرے نزدیک یہ سوال اس وجہ سے اٹھا ہے کہ قرآن و سنت میں جن جرائم کےلیے سزائیں مقرر کی گئی ہیں، انھیں "بدترین جرائم” اور ان کی سزاوں کو "انتہائی سزائیں” مان لیا گیا ہے۔ اگر اس کے بجاے ان جرائم کو "چند مخصوص جرائم” اور ان کی سزاوں کو "ان مخصوص جرائم کی مخصوص سزائیں” مان لیں، جیسا کہ فقہاے کرام ہمیشہ سے مانتے آرہے ہیں، تو یہ سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں ، یہ سوال رہتا ہے ،جو بالکل ہی مختلف نوعیت کا سوال ہے، کہ ان چند جرائم کی یہ مخصوص سزائیں کیوں مقرر کیا گئیں؟ یہ بحث کسی اور وقت کے لیے چھوڑ دیتے ہیں ۔

گنتی کے ان چند جرائم کے علاہ وہ جتنے بھی جرائم ہیں ان کے لیے سزائیں مقرر کرنے کا اختیار حکومت کو دیا گیا ہے جو اسلامی قانون کے عمومی قواعد (general principles of Islamic law) کی روشنی میں ان کی سزا مقرر کرسکتی ہے۔ اسے "سیاسۃ شرعیۃ” (administration of justice in accordance with Islamic law) کہا جاتا ہے۔

ذرا غور کریں تو یہی عقلی طور پر بہترین آپشن ہے۔ Rape کے جرم کو دیکھیے۔ دفعہ 375 میں اس کی جو تعریف پیش کی گئی ہے اس کی رو سے صرف جبراً sexual intercourse کی صورت میں ہی اس سزا کا اطلاق ہوسکتا ہے۔ جرم کی دیگر شنیع قسمیں اور صورتیں، جیسے anal sex, oral sex, insertion of foreign elements وغیرہ اس تعریف میں نہیں آتیں۔ ان میں صرف anal sex کو دفعہ 377 کے تحت الگ مستقل جرم (unnatural lust) قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے لیے بھی intercourse ضروری ہے!

بھارت میں دلی کے واقعے کے بعد جو تفصیلی قانون سازی کی گئی ہے اور جرم کو انواع میں تقسیم کرکے ہر نوع پر الگ الگ سزا مقرر کی گئی ہے، اس کا بنیادی تصور بہت حد تک اسلامی قانون کے قواعد سے ہم آہنگ ہے۔

یاد رکھیے کہ یہ معاملہ صرف rape کی حد تک ہی نہیں ہے۔ قرآن و سنت میں اور بھی کئی شنیع جرائم کی سزا مقرر نہیں کی گئی۔ سب سے بڑی مثال تو ربا ہے جسے کھانے والے کے خلاف قرآن نے اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اعلانِ جنگ کیا ہوا ہے لیکن اس کی کوئی "مقررہ سزا” نہیں ہے۔ کیا سود کھانے والے کے خلاف "فوجی کارروائی” یا "جنگی اقدام” کیا جائے گا؟ کیا یہ قانونِ جنگ کا مسئلہ ہے؟ فوجداری قانون کا نہیں؟

مولانا اصلاحی نے "فساد” کی تمام قسموں کو آیتِ حرابہ کے تحت سزا دینے کا جو تصور دیا اس سے یہ مسئلہ حل ہوتا نہیں بلکہ اور گھمبیر ہوجاتا ہے

[pullquote]قذف کے متعلق پاکستانی قانون کے غیر موثر ہونے کی وجہ[/pullquote]

دیگر اسلامی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی تعزیراتی قوانین کے اسلامیانے (Islamization) کے عمل میں یہ طرز ِعمل اختیار کیا گیا ہے کہ فقہِ اسلامی اور انگریزی قانون کے مختلف، بلکہ بسا اوقات باہم متصادم، اصولوں کو ایک ہی قانون میں مصنوعی پیوند کاری کے ذریعے یک جا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دراصل قانون سازی کے کام سے منسلک بیشتر افراد اور عدالتوں کا موقف یہ رہا ہے کہ رائج الوقت انگریزی قوانین میں اِکا دُکا تبدیلیاں کرکے انہیں مشرف بہ اسلام کیا جاسکتا ہے۔ اس پیوند کاری کے عمل کے نتیجے میں وجود میں آنے والے قوانین نہ صرف اندرونی تضادات کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اکثر ان قوانین میں ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جسے پر کرنے کے لیے عدالت کو اپنے دائرۂ کار سے آگے بڑھ کر باقاعدہ قانون سازی کا منصب اختیار کرنا پڑتا ہے۔

اس اندرونی تضاد کی وجہ سے ہی قذف کا قانون پاکستان میں غیر موثر ہوگیا ہے اور یہی سبب ہے کہ زنا کے متعلق قانون کے غلط استعمال کے لیے لوگوں کو کھلی چھٹی مل گئی ۔ یہاں اس بات کے لیے قذف کے قانون سے صرف ایک مثال پیش کی جارہی ہے :

حدِ قذف آرڈی نینس کی دفعہ ۳، استثناے دوم کے مطابق ”نیک نیتی“ (Good Faith) کی بنیاد پر لگایا گیا زنا کا الزام ” قذف “ نہیں ہے۔

It is not ‘qazf’ to prefer in good faith an accusation of ‘zina’ against any person to any of those who have lawful authority over that person with respect to the subject matter of accusation:
(یہ قذف نہیں ہے کہ کسی شخص کے خلاف زنا کی شکایت نیک نیتی کے ساتھ ان لوگوں کو کی جائے جو اس شکایت کے متعلق اس شخص پر قانونی اختیار رکھتے ہوں ۔ (

یہ استثنا صراحتاً اسلامی قانون سے متصادم ہے اور اس نے عملاً حدِ قذف آرڈی نینس کو غیر مؤثر کردیا ہے۔ عام جرائم کے برعکس قذف کے معاملے میں شریعت نے نیت کو سرے سے غیر متعلق قرار دیا ہے، گویا انگریزی قانون کی اصطلاح میں یہ ایک strict liability offence (سخت ذمہ داری کا جرم) ہے۔ فقہا نے تصریح کی ہے کہ جب مقدمۂ زنا میں چار گواہ پیش ہوتے ہیں تو ان میں ہر گواہ کی گواہی تنہا دیکھی جائے تو قذف ہی ہے، لیکن جب چار گواہ پورے ہوجائیں تو ان چاروں کی گواہی مل کر زنا کے ملزم کے خلاف حجت بن جاتی ہے۔

الشهادة على الزنا قذف في الحقیقة، و لکن بتکامل العدد یتغیر حکمها، فیصیر حجةَ الحد.
(زنا کی شہادت فی الحقیقت قذف ہے لیکن عدد کے پورا ہونے سے اس کا حکم تبدیل ہوجاتا ہے، اور وہ حد کی حجت بن جاتی ہے۔ )

پس جب تین گواہ زنا کے متعلق گواہی دے دیں مگر چوتھا گواہ گواہی دینے سے رک جائے، یا اس کی گواہی زنا کے اثبات میں صریح نہ ہو، تو پہلے تین گواہوں پر قذف کی حد نافذ کی جائے گی۔ سیدنا عمر نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ کے خلاف گواہی دینے والے تین اشخاص پراسی بنا پر حدِ قذف جاری کی تھی۔

چنانچہ اس استثنا کی کوئی فقہی بنیاد نہیں ہے، بلکہ درحقیقت یہ مجموعۂ تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۴۹۹ سے ماخوذ ہے جس کی آٹھویں استثنا کے الفاظ یہ ہیں :
It is not defamation to prefer in good faith an accusation against any person to any of those who have lawful authority over that person with respect to the subject matter of accusation.
(یہ ازالۂ حیثیت ِ عرفی نہیں ہے کہ کسی شخص کے خلاف کوئی شکایت نیک نیتی کے ساتھ ان لوگوں کو کی جائے جو اس شکایت کے متعلق اس شخص پر قانونی اختیار رکھتے ہوں ۔)

اب مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ انگریزی قانون کے اصولوں کے تحت ازالۂ حیثیتِ عرفی (defamation) کا جرم strict liability offence نہیں ہے۔ اس لیے اس جرم سے نیک نیتی کا استثنا مناسب تھا، مگر قذف سے یہ استثنا کسی صورت درست نہیں ہے۔ درحقیقت حدِ زنا آرڈی نینس کے غلط استعمال کو روکنے کا سب سے مناسب طریقہ حدِ قذف آرڈی نینس کو مؤثر بنانا تھا، مگر حدِ قذف آرڈی نینس کو اس استثنا نے عملاً بالکل ہی معطل کردیا ہے۔

[pullquote]پاکستانی قانون میں لعان کا ناقص طریقِ کار[/pullquote]

شریعت مطہرہ نے زنا کے الزام کو شدید ترین الزام قرار دیتے ہوئے اس کے لیے مشکل ترین معیارِ ثبوت رکھا ۔ البتہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر یہ الزام لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو شریعت نے اس کے لیے لعان کا طریقِ کار مقرر کیا ۔ حدِ قذف آرڈی نینس کی دفعہ ۱۴ کے تحت لعان کے اس طریق کار کو پاکستانی قانون میں رائج کردیا گیا تھا ۔ قانونِ تحفظِ نسواں ۲۰۰۶ء کے تحت کی گئی ترامیم نے اس طریقِ کار کو انتہائی حد تک ناقص کردیا ہے۔

چناں چہ حدِ قذف آرڈی نینس کی دفعہ ۱۴ کی تیسری شق کے تحت قرار دیا گیا تھا کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر الزام لگانے کے بعد لعان کے طریقے کے مطابق قسم اٹھانے سے گریز کرے تو اسے محبوس رکھا جائے گا تا آں کہ وہ قسم اٹھائے۔ اسی طرح قرار دیا گیا تھا کہ اگر شوہر قسم اٹھائے لیکن بیوی قسم اٹھانے سے گریز کرے تو اسے محبوس کیا جائے گا تاآں کہ یا تو وہ جرم کا اقرار کرے یا قسم اٹھائے۔

اس دفعہ کی چوتھی شق میں قرار دیا گیا تھا کہ اگر بیوی جرم کا اقرار کرے تو اسے حد کی سزا دی جائے گی۔

قانونِ تحفظِ نسواں نے یہ دونوں شقیں ختم کردی ہیں۔ اس کی وجہ وزیرِ قانون نے اس قانون کے مسودے کو پارلیمنٹ میں پیش کرتے وقت یہ ذکر کی تھی کہ لعان تنسیخِ نکاح کا ایک طریقہ ہے اور اس کا فوج داری قانون کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے!

چناں چہ "مسلمانوں کے تنسیخِ نکاح کے قانون ” کی دفعہ۲ ذیلی دفعہ vii میں ایک شق کا اضافہ کرکے ”لعان “ کی یہ تعریف شامل کی گئی :

Lian means where the husband has accused his wife of zina and the wife does not accept the accusation as true.

(لعان سے مراد یہ صورت ہے کہ شوہر بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور بیوی اس الزام کی صداقت سے انکاری ہو ۔)

یہ تعریف واضح طور پر ناقص ہے، کیوں کہ صرف شوہر کے الزام اور بیوی کے انکار کو لعان نہیں کہتے، بلکہ اس الزام اور انکار کے بعد دونوں فریق قسم اٹھائیں گے اور باہم ملاعنت کریں گے جس کے بعد ہی تنسیخِ نکاح کا حکم جاری کیا جائے گا۔

اب اگر بیوی نے جرم کا اقرار کیا , یا فریقین میں کسی نے قسم اٹھانے سے انکار کیا , تو ان صورتوں میں کیا کیا جائے گا؟ قانون اس سلسلے میں خاموش ہے۔ چنانچہ اس خلا کو پر کرنا عدالت کا کام ہے اور اگر عدالت وہی کچھ قرار دے جو منسوخ شدہ شقوں میں پہلے ہی سے قرار دیا گیا تھا تو پھر ان شقوں کی منسوخی کا جواز کیا تھا ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تجزیے و تبصرے