بین الاقوامی سیاسی شخصیات کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ 30 ہزار سیاسی قیدیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے پر ایرانی حکومت کی قیادت کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے۔ یہ مطالبہ ہفتے کے روز پیرس کے نواح میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں کیا گیا۔ ایرانی مزاحمت کی قومی کونسل کی جانب سے کرائے جانے والے سیمینار میں ایرانی کمیونٹی کے افراد کے علاوہ فرانسیسی ، یورپی اور عرب شخصیات نے بھی شرکت کی۔
کونسل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے سابق رکن اور پینسلوینیا کے سابق گورنر اڈ رینڈل نے 1988 میں ایران میں سیاسی قیدیوں کے دہشت ناک قتل عام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "کیا اس سے زیادہ کوئی پریشان کن بات ہو سکتی ہے کہ روحانی کی حکومت کا وزیر انصاف اُس قتل عام میں ” ڈیتھ کمیٹی” کا رکن تھا ؟”.
رینڈل نے مزید کہا کہ اس امر سے موجودہ حکومت کے "دائرہ اعتدال” کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ ایران میں آزادی کو یقینی بنانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے موجودہ نظام کی تبدیلی۔
دوسری جانب فرانس کے سابق وزیر خارجہ برنارڈ کوشنر نے اپنے خطاب میں مُلائی نظام کے جرائم کے خلاف عدالتی کارروائی کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ "میں خود سے سوال کرتا ہوں کہ جب ایران میں یہ جرائم ہو رہے تھے تو اس وقت انسانی حقوق کا دفاع کرنے والے کہاں تھے ؟ "۔ کوشنر کے مطابق قتل عام صرف 1988 میں نہیں ہوا بلکہ وہ آج تک ایران میں جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس ایران میں آبادی کی نسبت سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ تعداد میں سزائے موت پر عمل درامد ہوا ، موت کے گھاٹ اتارے جانے والے افراد کی تعداد میں نیوکلیئر معاہدے کے بعد اضافہ ہوا ہے۔
یورپی پارلیمنٹ کے سابق رکن اور عراق کی آزادی کے لیے یورپی سوسائٹی کے سربراہ اسٹرون اسٹیونسن کا کہنا تھا کہ ” سال 1988 میں 30 ہزار قیدی نسل کشی کا شکار ہوئے.. تاہم مغرب کی جانب سے کچھ نہیں کیا گیا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اگر اقوام متحدہ ذرہ برابر بھی معتبریت کی حامل ہے تو اس کو رواں ماہ اس معاملے کو جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل کو سونپنا ہوگا۔ یہ ان کے ایجنڈے میں مرکزی موضوعات میں ہونا چاہیے۔ اس معاملے کو عالمی سلامتی کونسل کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ قتل عام میں متعلقہ افراد کا احتساب ہونا چاہیے”۔
ادھر ایرانی مزاحمت کی قومی کونسل کی سربراہ مریم رجوی نے عالمی برادری اور مغربی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ ولایت فقیہ کے نظام کی قیادت کو ایران میں انسانیت کے خلاف جرائم بالخصوص 1988 میں 30 ہزار سیاسی قیدیوں کے قتل عام کی وجہ سے بین الاقوامی تقاضوں کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے باور کرایا کہ "1988 کے قتل عام کی بنیاد پر عدالتی کارروائی کے لیے حرکت میں آنے والے عناصر درحقیقت اس نظام کے سقوط کے معرکے کی ایک کڑی ہیں۔ مریم رجوی ایرانی عوام پر زور دیا کہ وہ اس تحریک کو وسیع کرنے کے لیے نصرت اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
یاد رہے کہ "مجاہدین خلق” تنظیم جو ایرانی مزاحمت کی قومی کونسل کا بانی دھڑا ہے ، ایک مہم چلا رہی ہے جس کا مقصد 1988 میں سیاسی قیدیوں کے قتل عام کے ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔ موت کے گھاٹ اتارے جانے والوں میں غالب اکثریت مجاہدین خلق کے ارکان کی تھی۔ تنظیم نے 80ء کی دہائی میں ہونے والے اس قتل عام سے متعلق تصاویر کی نمائش کا بھی انعقاد کیا جب کہ متعدد عینی شاہدین اور سابق قیدیوں نے اس ہولناک واقعے کے حوالے سے اپنی یادوں اور مشاہدات کا ذکر کیا۔