یہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے ایک چوک کا منظر ہے . اس چوک کے سامنے شہر کے سب سے بڑے ہسپتال سی ایم ایچ کا داخلی دروازہ ہے . سی ایم ایچ کے باہر چوک میں سڑک پر دری بچھا کر بیٹھا یہ شخص کوئی پنساری نہیں بلکہ اسی شہر کا ایک باسی ہے .
ہسپتال کے سامنے بیٹھ کر انوکھے انداز میں”ختم نجات” پڑھ کر احتجاج کرنے والے اس نوجوان کا نام فیصل جمیل کاشمیری ہے .
وہ چھوٹے سے اس شہر میں واقع اس بڑے ہسپتال کی حالت زار کی جانب انتظامیہ کی توجہ دلانا چاہتے ہیں .
فیصل جمیل کاشمیری نے آئی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا دوہزار پانچ کے تباہ کن زلزلے کے بعد یہ ہسپتال سول و ملٹری کے مشترکہ انتظام میں ہے لیکن اس جدید ترین عمارت کے اندر انسانیت سسکتی ہے .
انہوں نے کہا کہ ”زلزلے کے بعد متحدہ عرب امارات کی حکومت نے مظفرآباد اور راولاکوٹ میں اس طرز کے دو ہسپتال تعمیر کیے اور انہیںجدید ترین مشینری سے لیس کیا لیکن اب حالت زار یہ
ہے کہ یہاں اکثر مشینیں خراب رہتی ہیں . اس صورت حال میں غریب مریضوں کو اپنی جائیداد بیچ کر پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کے لیے جانا پڑتا ہے .”
انہوںنے بتایا کہ ”حالت یہ ہے کہ ہسپتال کے عملے کے پاس حفاظتی دستانے تک نہیںہوتے . ایکسرے کی فلم نہیں ملتی اور غریب مریضوں کو باہر پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ایکسرے اور ٹیسٹ کروانے بھیج دیا جاتا ہے ”
انہوں نے کہا کہ ”جب انتظامیہ سے احتجاج کیا جاتا ہے تو وہ فنڈر نہ ہونے کا عذر پیش کرتے ہیں ”
فیصل جمیل کا کہنا تھا کہ ”یہاں غریب کو جوتے مار کر باہر نکال دیا جاتا ہے ، ڈلیوری کے نارمل کیسوں کو بھی جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے آپریشن میں بدلا جاتا ہے . اس کا مقصد صرف پیسے
بٹورنا ہے ”
سی ایم ایچ جسے دوہزار پانچ کے زلزلے کے بعد شیخ الخلیفہ زید بن النہیان ہسپتال کا نام دیا گیا ،کافی عرصے سے اس ہسپتال کے حالت زار سے متعلق شکایات عام ہیں .
شہریوں کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں جا کر ڈاکٹروں کو حاضر نہ پا کر دہری تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے .
شہری دور دراز سے سفر کر کے اس ہسپتال میں علاج کی غرض سے آتے ہیں لیکن یہاں ڈاکٹروں کا مایوس کن رویہ اور ادویات کی عدم دستیابی انہیں مزید پریشان کر دیتی ہے .
فیصل جمیل کاشمیری نے آزادکشمیر کے سابق چیف سیکریٹری کے مقامی اخبار ”خبرنامہ ” کو دیے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ بھی دیا جس میں
انہوں نے کہا تھا کہ ”محکمہ صحت میں ادویات کی خرید کی مد میں کروڑوں روپے کی کرپشن کی گئی ہے”
ایک شہری شیخ فیص الرحمٰن چشتی نے فیس بک پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”ڈاکٹر جیسا اعلی تعلیم یافته انسان بھی اگر خود غرضی دکھاۓ گا تو پھر عام آدمی کا رویه کیسا ھو گا. ھم لوگ زمانه جاھلیت میں چلے گۓ ھیں.اصلاح کی ضرورت ھے”
مظفرآباد کے شہری فیصل جمیل کاشمیری اس بار بھی "ختم شریف برائے ہنس پتال” کا بورڈ آویزاں کیے سخت دھوپ میں درود شریف کا ورد کررہے ہیں .
چالیس سالہ فیصل جمیل کاشمیری کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنی سیاسی قیادت اور دیگر ذمہ داران کو متوجہ کرنے کی کوشش جاری رکھیں گے جب تک اس ہسپتال کے اندر انسان کو
"انسان” سمجھ کر سلوک نہیں کیا جاتا اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک بند نہیں کیا جاتا.
خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل فیصل جمیل کاشمیری اور ان کے ساتھیوں نے سی ایم ایچ میں ادویات کی کمی اور عام شہریوں کے ساتھ مبینہ بد سلوکی کے واقعات کے بعد ہسپتال کے لیے "بھیک”مانگنے کی مہم بھی چلائی تھی .
اس بارے میں سوال کے جواب میں فیصل کا کہنا تھا کہ ”اس احتجاج کے نتیجے میں ہلکا پھلکا
سا ایکشن تو لیا گیا تھا لیکن کچھ دن بعد حالات پہلے سے بھی بدتر ہو گئے تھے”
فیصل جمیل کاشمیری کا مطالبہ ہے کہ ”حکومت ہسپتالوں کے نام پر خالی عمارتیں بنانے اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کا سلسلہ بند کرے ”
مظفرآباد میں مقیم سینئر صحافی آصف رضا میر نے شیخ زید ہسپتال مظفرآباد کی حالت زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”یہ کیسا ہسپتال ہے جہاں انسان جاتا تو اپنے پاوں پر ہے اور واپسی پر
اس کو چار کندھوں پر لایا جاتا ہے؟”
آصف رضا میر نے اس امید کا اظہار بھی کیا ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر اور ہسپتال انتظامیہ اس احتجاج کا نوٹس لے کر حالات کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائیں گے .