قانون بننے سے پہلے ابھی اس بل کو ابھی ایوانِ زیریں اور ہاؤس آف لارڈز یعنی ایوانِ بالا میں مزید جانچ پڑتال کا سامنا ہوگا
برطانوی پارلیمان میں ایوانِ زیریں کے اراکین نے بھاری اکثریت کے ساتھ ایک ایسے بل کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں جس کے ذریعے وزیراعظم تھریسا مے کو بریگزٹ کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے ’یورپی یونین بل‘ کی لیبر پارٹی نے بھی حمایت کی اور اس کے حق میں 114 کے مقابلے میں 498 ووٹ ڈالے گئے۔
تاہم لیبر پارٹی کے 47 اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنی پارٹی کے موقف سے بغاوت کی۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعت ایس این پی، اور لبرل ڈیموکریٹس نے اس بل کی مخالفت کی۔
قانون بننے سے پہلے ابھی اس بل کو ایوانِ زیریں اور ہاؤس آف لارڈز یعنی ایوانِ بالا میں مزید جانچ پڑتال کا سامنا ہوگا۔ آئندہ ہفتے اسے قانون کے طور پر ایوانِ زیریں میں پیش کیا جائے گا۔
وزیراعظم تھریسا مے نے لسبن معاہدے کے آرٹیکل 50 کے ذریعے ای یو کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے لیے 31 مارچ کی حتمی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔
یورپ سے علیحدگی کی مہم کے ایک سرکردہ رکن برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے اس ووٹ کو انتہائی تاریخی قرار دیا ہے۔ ایک پیغام میں انھوں نے کہا کہ ہم یورپی معاہدوں سے علیحدہ ہو رہے ہیں مگر یورپ نہیں چھوڑ رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک نئی شناخت پیدا کریں گے اور یورپ میں ایک انتہائی مثبت کردار ادا کریں گے۔
ووٹ کے نتیجے کے اعلان کے وقت ایک رکنِ پارلیمان نے بلند آواز میں اسے خودکشی پکارا۔
یاد رہے کہ برطانیہ کی عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ بریگزٹ پر عمل درآمد شروع کرنے کا فیصلہ پارلیمان میں ووٹنگ کے ذریعے کیا جائے۔ اس عدالتی فیصلے کا مطلب یہ تھا وزیراعظم تھریسا مے ارکان پارلیمان کی منظوری کے بغیر یورپی یونین کے ساتھ بات چیت شروع نہیں کر سکیں گی۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال جون میں برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا نکل جانے کے سوال پر ہونے والے تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔