الوداع آپابانو قدسیہ

الوداع آپابانو قدسیہ

اک عہد تمام ہوا

۔جانے والے کو کوئی روک پاتا ہے بھلا وہ بھی اگر مسافر ہی ملک عدم کا بن جائے تو اسکو روکنا ناممکنات میں سے ہے ۔یہ وہ سفر ہے جس پر بڑے بڑے بادشاہ اور شاہ بھی فقیر بن کر روانہ ہوتے ہیں ۔لیکن کیا شان بے نیازی ہے فقیرانہ مزاج اور پاکیزہ باطن سے مطہر سینہ رکھنے والے آپہ بانو جب اسی راہ پر گامزن ہوئی ہیں ۔ تو ان کی آن بان شان سے بانکپن ٹپکتا ہے اور وہ شاہوں کے شاہ محسوس ہوتی ہیں ۔میری آپہ بانو قدسیہ انہی درویشی مزاج کے حامل رندوں کی سرخیل تھیں ۔جن کی رحلت پہ ہر طرف ہلکی ہلکی آنسووں کی برسات دیکھی نہیں محسوس کی جا سکتی ہے ۔آپہ بانو قدسیہ کو کبھی نہ دیکھا نہ ہی کبھی ملے لیکن ان کی تحریروں سے ہی ان کی شخصیت ہمارے گرد حلقہ بنائے گھوم رہی ہے ۔

مجھے آج ان کی وفات پر گورنمنٹ کالج لاہور کی وہ سیڑھیاں یاد آ رہی ہیں جن پہ کھڑی ہو کہ آپہ بانو اک اکنی سگریٹ کے لیے اشفاق احمد کو پیش کرتی تھیں اور پھر ان دونوں کی پریم کہانی کو بھی لکھنے کو جی چاہا رہا ہے جو برصغیر میں محبت کے دعوئے کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔آج کی نوجوان نسل کو محبت کرنے اور اسکے نبھانے کا فن آپہ بانو قدسیہ سے سکھینا چاہیے ۔اس نے پوری زندگی اپنے خان کو دیوتا مانا اور وہ اسکی پوجا کرتی تھی ۔عشق میں ایسی ہی عبادت کو دوام حاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مجھے ان کے رمز شناس ممتاز مفتی کا وہ خاکہ جو بانو قدسیہ کا انہون نے لکھا یاد آ رہا ہے اس میں نے انہون نے بانو قدسیہ کو پتی بھگت کے نام سے یاد کیا ہے ۔بانو قدسیہ اک مرید کی طرح اپنے شوہر کی خدمت کرتی اور ٹوٹ کے پیار کرتی تھیں جس کا اظہار کئی موقعوں پر نظر آیا اور اسکی گواہی چھڈ یار کے معروف ٹولے نے بھی معتدد مواقع پر دی ہے ۔اسلام پورہ کا وہ گھر جس میں احمد بشیر کی محنت رنگ لائی اور یہ حسین جوڑا شادی کے بندھن میں بندھ گیا ۔

پھر ساری زندگی میری نظر میں بانو قدسیہ خدمت شوہر میں لگی رہیں وہ چپ چاپ اپنے خان کی ترقی پہ مسکراتی تھیں حالانکہ بانو قدسیہ کا فنی لحاظ سےاشفاق احمد سے بڑی لکھاری تھیں ۔ حاصل گھاٹ ۔امر بیل اور راجہ گدھ۔افسانوی مجموعے اس بات کی شہادت فراہم کرتے ہیں ۔ اس سب کے باوجود وہ صوفیانہ مزاج کی حامل تھیں ۔سمن آباد میں بھی اس کا بہترین وقت اشفاق احمد اور ان کے دوستوں کی خدمت میں گزرتا تھا اور پھر ماڈل ٹاون کا داستان سرائے تو ادیبوں کا گھر بن چکا تھا اس میں ان کی خاطر تواضع کی ساری ذمہ داری بانو قدسیہ پر عائد ہوتی تھی ۔باذق حضرات ان کی آپ بیتی راہ رواں کا مطالعہ کر کے پوری زندگی کی تصویر اپنے ذہہن میں بنا سکتے ہیں ۔

مال روڈ پر چہل قدمی اور پرانی انارکلی میں اورنیٹل کالج کے ساتھ پرانی کتابوں کے ٹھییلوں پر اتوار والے دن گھنٹوں بیٹھے رہنا ان کا شغل عزیز تھا ۔ادیبوں اور لکھاریوں کی ہر دم خدمت کرنے والی بانو قدسیہ کامیاب ادیبہ کے ساتھ ساتھ اک بہترین منتظم اور گھریلو عورت تھیں ۔ان کا سارا سارا دن کچن میں گزرتا اور ہمہ وقت اپنے دیوتا کی خدمت میں معمور رہتیں تھیں ۔کیا خبر لکھنے کا وقت کس طرح ان کو ملتا ہو گا ۔شہابیہ قبیلے سے بھی ان کا تعلق بہت بڑا گہرا تھا ۔وہ اک بھر پور زندگی گزار کے راہ عدم کو روانہ ہو چکی ہیں ۔اصل حقیقت یہی ہے کہ وہ اشفاق احمد کی موت کے بعد اک اک لہمہ اذیت اور انتظار میں گزار رہی تھیں کہ کب موقعہ ملے تو وہ دوبارہ اپنے مجازی خدا کی خدمت بجا لائیں ۔اشفاق احمد کی طرح نہ تو ان کی خواہش تھی کہ ان کی قبر پر مزار بنے اور لوگ ان کے دربار پر منتیں مانگیں اور نہ ہی ممتاز مفتی کی طرح بینڈ واجے کے ساتھ جنازے لے جانے کی وصیت کی ہے ۔آپہ بانو قدسیہ تو اک سادھو تھیں اک مجاور تھیں اک عاشق تھیں ۔جو اپنی مراد پانے کے لیے ساری زندگی جتی رہیں اور اپنی مراد کو حاصل کر کے چھوڑا .

آج رات احمد بشیر دوبارہ متحرک ہو گا اور ممتاز مفتی کے ہمراہ اشفاق احمد کے ہاں پہنچ جائے گا کیونکہ ان کی زندگی کا حاصل ان کا مہمان بننے والا ہے
مجھے خبر نہیں دنیا میں اپنے آپ کو چپھانے والی بانو قدسیہ اس مقام پر بھی کچن میں جا گھسے اور اشفاق احمد کے دوستوں کی خدمت بجا لائے .

لیکن اب آپا بانو قدسیہ سے ملنا کس قدر آسان ہو جاے گا وہ ماڈل ٹاون کے قبرستان میں اشفاق احمد کے پہلو میں لیٹی کن اکھیوں سے اپنے محبوب کا دیدار کر رہی ہوں گی. آپا آپ آنکھیں کھولیں تو آپ کے استقبال کےلیے قدرت اللہ شہاب کی سربراہی میں کتنے ہی نامور لوگ قطار بنائے کھڑے ہیں . بانو قدسیہ اس دنیا میں رہے نہ رہے اسکی یادیں باتیں تحریر یں ان کو دائمی زندگی عطا کر چکی ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے