کیا سعودی عرب میں تبدیلی آ رہی ہے؟

اگر آپ کسی سے سعودی عرب میں تبدیلی کے بارے میں پوچھیں تو وہ کہیں گے: تبدیلی آئے گی، لیکن اپنے وقت پر۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کام میں سالہاسال لگ سکتے ہیں تاہم خود سعودیوں کو مہینوں میں تبدیلیوں کی امید ہے۔
ریاض میں ایک کامیاب سعودی تاجر خاتون نے مجھ سے کہا: ‘میں نے ایک مرد شریکِ کار سے شرط لگائی تھی کہ عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی اس سال کے پہلے چھ ماہ میں اٹھ جائے گی، اور انھوں نے کہا کہ دوسرے ششماہی میں۔
‘لیکن اب میرا خیال ہے کہ یہ پابندی اگلے سال کے شروع میں ہٹے گی، اور اس کا اطلاق صرف 40 سال سے زیادہ عمر کی خواتین پر ہو گا۔’ ریاض کے شاہی حلقوں میں بھی ایسی ہی پیشنگوئیاں گردش کر رہی ہیں۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ نوجوان خواتین کو بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی۔ سعودی عرب جیسے کٹر قدامت پسند معاشرے کے ہر شعبے میں تبدیلی سست رفتاری سے آتی ہے جہاں مذہبی حکام انتہائی اثر و رسوخ کے حامل ہوتے ہیں اور بہت سے سعودی اپنے موجودہ طرزِ زندگی سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر حکمرانوں اور معاشرے دونوں پر ہو رہا ہے۔ ریاض میں گلف ریسرچ سینٹر کے جان سفاکیاناکس کہتے ہیں: ‘وقت بہت کم رہ گیا ہے۔’ چند سال قبل سیاہ سونا کہلانے والے سعودی تیل کی فروخت سے آنے والا منافع آدھا ہو کر رہ گیا ہے، جس کا اثر زندگی کے مختلف شعبوں پر پڑ رہا ہے۔

سفاکیاناکس کہتے ہیں: ‘یہ تیل عشروں سے انجن کا کام کر رہا تھا۔ لیکن اب بہت سے انجنوں کی ضرورت ہے۔’ اس مقصد کے حصول کے لیے سعودی حکومت نے گذشتہ برس وژن 2030 نامی منصوبہ تیار کیا تھا۔ اس کی باگ ڈور 31 سالہ نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو سونپی گئی ہے، جنھوں نے دنیا کی بہترین ایجنسیوں سے کہا ہے کہ وہ منصوبے اور تصورات پیش کریں۔ ملک کے بااثر وزیر برائے تیل خالد الفالح کہتے ہیں کہ ‘وژن 2030 انتہائی اہم ہے۔’ سرکاری نوکریوں میں بھاری تنخواہیں اور پرتعیش مراعات ختم کر دی گئی ہیں۔ نجی شعبے سے توقع ہے کہ معیشت کی نمو میں وہ بڑا کردار ادا کرے۔ لیکن ابھی اس کی رفتار سست ہے۔ ایک سعودی نے نام ظاہر کیے بغیر بتایا: ‘بہت مشکل نظر آ رہا ہے کہ وژن 2030 اپنی منزل تک 2030 میں پہنچ جائے۔ تاہم کم از کم کوئی وژن ہے تو سہی۔’

نوجوان شہزادے کو معلوم ہے کہ ایک اور گھڑی بھی چل رہی ہے جو تبدیلی لانے کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہے۔ دو تہائی سعودی ان کی عمر کے یا ان سے چھوٹے ہیں۔ شاہ عبداللہ کے تعلیمی وظائف کے پروگرام کے تحت لاکھوں نوجوان سعودی مغربی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہو کر ملک واپس لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو وہ نوکریوں کی تلاش میں ہیں، دوسری طرف انھیں ایک ایسے معاشرے کا سامنا ہے جہاں سینماؤں پر پابندی ہے اور ریستورانوں میں مردوں اور عورتوں کے لیے الگ حصے ہیں۔ تاہم تبدیلی کی سمت میں قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ اب گلیوں میں بدنامِ زمانہ مطوع نامی مذہبی پولیس نظر نہیں آتی جن کا مشن ‘برائی کو روکنا اور نیکی کو فروغ دینا’ تھا اور جو اکثر اوقات اپنی حد سے تجاوز کرتی تھی۔ ان کے خاتمے کا سہرا ولی عہد کے سر باندھا جا رہا ہے۔ ریاض کے امیر شہری کہتے ہیں کہ شہر میں کچھ ایسے ریستوران کھل گئے ہیں جہاں زنانہ مردانہ شعبوں کا زیادہ سختی سے خیال نہیں رکھا جاتا اور وہاں تیز موسیقی بجتی رہتی ہے۔ میں ولید السعدان سے ایک صحرائی ریس کے موقعے پر ملی۔ وہ کہتے ہیں: ‘ہم چاہتے ہیں کہ عورتیں گاڑیاں چلائیں اور سینیما کھلیں۔’ صحرا میں گاڑیوں کی ریس ایک ایسی سنسنی ہے جس سے سعودی قانونی طور پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

لیکن یہاں بھی صرف مرد ہی اپنی فور وہیل اور ایس یو وی گاڑیوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ‘عمومی تفریحی محکمہ’ نامی ایک اور محکمہ یہاں سرگرمِ عمل ہے۔ لیکن اپنے نام کے باوجود اس محکمے کی کوشش ہے سعودی چند حدود کے اندر زندگیوں سے لطف اندوز ہوں۔ محکمے کے چیئرمین احمد الخطیب کہتے ہیں: ‘میرا مشن لوگوں کو خوش و خرم دیکھنا ہے۔’ انھوں نے بڑی محنت سے سال بھر میں 80 کے قریب میلے، آتش بازی کے ایونٹ، موسیقی کے شو اور دوسرے مواقع ڈھونڈے ہیں جہاں لوگوں کو تفریح فراہم کی جا سکتی ہے اور جن پر تنقید بھی نہ ہو سکے۔انھوں نے بڑے محتاط انداز میں مجھے بتایا: ‘ہم زیادہ لوگوں کو زیادہ مواقع فراہم کرنا چاہتے ہیں، ہم قدامت پسند لوگوں کو بھی سرگرمیوں سے متعارف کروانا چاہتے ہیں۔’

ایک سعودی ٹور آپریٹر گلہ کرتے ہیں کہ ‘سعودی ہر سال 70 ارب ریال باہر کے ملکوں میں چھٹیاں منا کر خرچ کر ڈالتے ہیں۔’ ان کی کوشش ہے کہ وہ سعودی عرب میں بھی دبئی یا لندن کی طرح سہولتیں فراہم کریں تاکہ لوگ باہر نہ جائیں۔عورتوں کو گاڑیاں چلانے کی اجازت دینا سماجی کے ساتھ ساتھ معاشی مسئلہ بھی ہے۔ مطالعہ جات سے معلوم ہوا ہے کہ اگر عورتیں گاڑیاں چلانے لگیں تو اس سے معیشت کو خاصی تقویت ملے گی۔تاہم سیاسی اصلاحات، انسانی حقوق کا ریکارڈ اور عورتوں کی زندگیوں پر پابندیاں ایسے معاملات ہیں جن پر کوئی بات نہیں کر رہا۔یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہمیشہ سے لوگ سستے پیٹرول، بغیر ٹیکس دیے اور مفت پانی اور بجلی کے عادی رہے ہیں۔
تاہم اب ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے اب سعودیوں کو اپنی آمدن پر نظر رکھنا پڑ رہی ہے۔

نادیہ الہذی انجینیئر ہیں جو پہلے تیل کی صنعت میں کام کرتی تھیں اور اب وژن 2030 سے وابستہ ہیں۔وہ کہتی ہیں: ‘سعودی بہت عرصے تک ہر چیز کو بہت آسان لیتے رہے ہیں۔’وہ امریکی صدر کینیڈی کا قول دہراتی ہیں: ‘یہ مت پوچھو کہ تمھارا ملک تمھارے لیے کیا کر سکتا ہے۔ یہ کہو کہ تم ملک کے لیے کیا کر سکتے ہو۔’سو اب سعودیوں سے زیادہ کچھ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ سیاسی مبصر حسن یاسین کہتے ہیں: ‘ہماری مثال ایسے کچھوؤں کی طرح ہے جن کے نیچے پہیے لگ گئے ہوں۔ ہم مقامی مطالبے اور21ویں صدی کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تیزی سے حرکت کر رہے ہیں۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے