ٹرمپ کی سفری پابندی عام شہریوں کیلئے نہیں، شامی صدر

دمشق: شامی صدر بشارالاسد نے نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سفری پابندی کی حمایت میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پابندی صرف دہشت گردوں پر عائد ہوتی ہے جبکہ شام کے عام شہری اس کی زد میں نہیں آئیں گے۔

شامی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے متنازع حکم نامے پر تبصرہ اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔

گذشتہ ماہ جنوری کے آخر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خصوصی حکم نامے کے تحت امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا تھا جبکہ 7 مسلمان ممالک ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کو 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزے جاری نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

حکم نامے کے تحت امریکا میں شامی مہاجرین کے داخلے پر تاحکم ثانی پابندی بھی عائد کردی گئی تھی۔

تاہم رواں ماہ 4 فروری کو واشنگٹن کے شہر سیٹل کی وفاقی عدالت کے جج جیمز رابرٹ نے ریاست واشنگٹن اور منیسوٹا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان احکامات کو معطل کردیا تھا۔

یورپ ون ریڈیو اور ٹی ایف ون ٹیلی ویژن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں بشارالاسد کا کہنا تھا کہ ‘یہ عمل دہشت گردوں کے خلاف ہے جو مہاجرین کی صورت میں مغرب میں داخل ہو سکتے ہیں، اور ایسا ہوا ہے، یورپ میں ایسا معاملہ ہو چکا ہے، خاص طور پر جرمنی میں یہ دیکھنے میں آیا’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ٹرمپ کا مقصد ان لوگوں کے داخلے کو روکنا تھا اور یہ پابندی شامی افراد کے خلاف نہیں’۔

اس سوال کے جواب میں کہ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی درست ہے یا نہیں، بشارالاسد نے کسی بھی تبصرے سے گریز کیا۔

ٹرمپ کے متنازع حکم نامے کے سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، جس پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے ذریعے وہ امریکا میں عسکریت پسندوں کی پابندی کو روکنا چاہتے ہیں اور ان کی انتظامیہ اس حکم کی معطلی کو چیلنج کرنے میں مصروف ہے۔

دوسری جانب بشارالاسد کی حکومت شامی باغیوں کی حمایت کے الزام میں مغربی ریاستوں پر تنقید کرتی رہی ہے اور خبردار کیا جاتا رہا ہے کہ باغیوں کی پشت پناہی دنیا بھر میں دہشت گرد حملوں کا سبب بن سکتی ہے۔

شام کے حوالے سے نئے امریکی صدر کی پالیسی اب تک واضح نہیں ہوسکی ہے وہ اس بات اشارہ دے چکے ہیں کہ باغی گروہوں کو حاصل حمایت ختم کردی جائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے