کویت کی وزارت داخلہ کے مطابق جمعے کے روز شیعہ مکتب فکر کی مسجد امام الصادق پر حملہ سعودی شہری نے کیا تھا جس میں 27 افراد جاں بحق جبکہ 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے ۔
وزرات داخلہ نے خودکش حملہ آور کی شناخت سلیمان عبدالمحسن القعبہ کے نام سے کی ہے،جو اسی روز کویت پہنچا تھا ۔کویتی حکام کہتے ہیں کہ مشتبہ سعودی حملہ آور غیر قانونی طور پر کویت میں داخل ہوا تھا۔
حملے کے بعد کئی افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں اس کار کا مالک اور ڈرائیور بھی شامل ہے جس میں بیٹھ کر خود کش بمبار حملے کرنے کے لیے مسجد پہنچا تھا۔
حکام نے اس مکان کے مالک کو بھی پکڑ لیا ہے جس میں خودکش بمبار گیا تھا۔ وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ بمبار ’انتہا پسند اور عام روش سے بھٹکے ہوئے نظریات‘ کا حامی تھا۔
دھماکے کے بعد دولت اسلامیہ (داعش ) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔دولت اسلامیہ سعودی عرب میں شیعہ مساجد پر حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے تاہم کویت کا حملہ کویت کی تاریخ میں اہل تشیع پر سب سے خونریز حملہ تھا ۔
بی بی سی کے نامہ نگار کہتے ہیں کہ اگرچہ خلیج کی کئی ریاستیں باہم متصادم رہتی ہیں لیکن دولتِ اسلامیہ سے نمٹنے کے لیے وہ اکٹھی ہیں۔
عرب امور کے لیے بی بی سی کے ایڈیٹر سیبسٹیئن کہتے ہیں کہ یہ حملے خلیج میں جہادیوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کو مزید قریب لے آئے ہیں۔
شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی کے لیے سبھی ریاستیں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج کا حصہ ہیں۔ تاہم انھوں نے اپنی شرکت کو زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیا۔
دولتِ اسلامیہ خلیج میں سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان کشیدگیاں بڑھانا چاہتی ہے
ان کے مطابق صاف لگتا ہے کہ دولتِ اسلامیہ خلیج میں سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان کشیدگیاں بڑھانا چاہتی ہے۔
خطے میں کویت ان ممالک میں شامل ہے جہاں شیعہ مسلک کے لوگ تعداد میں سب سے زیادہ ہیں لیکن سعودی عرب اور بحرین کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان کسی بھی طرح کا فرقہ وارانہ ٹکراؤ ابھر کر سامنے نہیں آیا ہے۔