روہنگیا کا نوحہ (پہلی قسط)

[pullquote]عالمی برادری کا عمومی ریسپانس[/pullquote]

گزشتہ کئی دہائیوں‌ سے ظلم مسلسل کی شکار روہنگیا مسلم اقلیت پر ہونے والے مظالم پر عالمی برادری کی خاموشی شرمناک ہے.
مورخ لکھے گا کہ ایک طرف برما میں روہنگیا مسلم کٹ مر رہے تھے عین اسی وقت امام کعبہ ’’فحاشی‘‘ کے خلاف خطبہ دے رہا تھا اور میدان عرفات میں ’مرگ بر امریکہ‘‘ کی صدائیں گونج رہی تھیں۔

[pullquote]مسلم دنیا کا رد عمل[/pullquote]
سالانہ اربوں ڈالر مار دھاڑ پر خرچ کرنے والا سعودی عرب چالیس سے زائد ممالک کی ’’اسلامی اتحاد‘‘ سمیت خاموش تماشائی بنا ہوا تھا اور مظلومین و مستضعفیین جہاں کی داد رسی کے دعویدار اور ’’اسلامی انقلاب‘‘ کا علمبردار ایران پر بھی کچھ ٹس سے مس نہین ہو رہا تھا۔ ہاں امت مسلمہ کی قیادت کا خواب دیکھنے والا ایک روس سے اور دوسرا ملک امریکہ سے دفاعی معاہدے اور عسکری اشتراک میں‌مصروف تھا. جبکہ ایٹمی طاقت کے حامل قلعہ اسلام پاکستان چائنہ سے دفاعی و اقتصادی معاہدے کر رہا تھا، عثمانی خلافت کا خواب دیکھنے والا ترکی کو بھی فرصت نہ ملی کہ وہ روہنگیا کے لیے کچھ کر سکے. دنیا کو انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور جمہوریت کا درس دینے والا متحدہ ریاست ہائے امریکہ اپنے چالیس اتحآدی ممالک کے ہمراہ عسکری مہم جوئیوں میں مصروف تھا.

پچاس سے زاید مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی اپنا وجود اور معنی ہی کھو چکی تھی (اب پنجابی والا او آئی سی بن چکی ہے) مسلم عوام میانمر کی مسلم اقلیت کو منافرت و تشدد کا راستہ دکھانے کے لیے تو فورا میدان میں اتر آتی تھی اور ان کو ’’اسلحہ اٹھا کر مقابل کا قتل عام‘‘ کا مشورہ دیتی رہی۔

مورخ یہ بھی لکھے گا کہ سینکڑوں میل ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر محض کتابیں پڑھ کر مسلم علماء اور قائدین چاروں اطراف سے گھرے تلخ تاریخی پس منظر اور حال و مستقبل کی بے یقینی میں خون و آگ کے درمیان بستی روہنگیا مسلم اقلیت کے لیے اقتصادی اور سیاسی میدان میں کچھ کرنے کی فکر سے عاری تھے۔ وہ روہنگیا کے مسئلے کو دنیا کے سامنے اصلاً اجاگر ہی نہ کر سکے۔

چونکہ روہنگیا کے بے بسوں سے کسی کو شہریہ ملتا تھا اور نہ ہی اعزازیہ، ان کے ہاں تبلیغ کے لیے جا کر بھی کچھ ملنے کی امید نہ تھی، ان کی بدقسمتی یہ بھی اضافی کہ وہ شیعہ تھے، نہ سنی، دیوبندی نہ بریلوی، صوفی تھے نہ سلفی، ملک کی سرحد پر بسنے والے سیدھے سادھے یہ لوگ محض مسلمان نکلے اس لیے کوئی بھی مسلک والا ان کے لیے گھر سے باہر نہ نکلا۔

یہ مملکتَ میانمر کی خوش قسمتی ہے کہ وہ کسی مسلم ملک کا ریاستی دشمن نہیں ٹھہرا ورنہ اگر ان مظالم کا دسواں حصہ بھی انڈیا، اسرائیل یا امریکہ جیسے ممالک میں ہوتا تو غیرت مسلم زندہ ہوکر خون مسلم اتنا جوش مار لیتا کہ ان کو لگ پتہ جاتا اور کچھ نہ کر سکے تو اپنے ہی املاک کو جلاؤ گھیراؤ کے بعد بھسم کر لیتے۔

میانمر بھی چائنہ، سعودی عرب، ایران اور ترکی کی طرح نکلے جہاں انسانی حقوق کا راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ میانمر ذرائع ابلاغ بھی "دہشت گردوں” پر فتح کے ترانے سناتے ہیں۔ عدلیہ اتنی آزاد ہے کہ وہ انصاف کے قتل عام کے بعد سب کچھ جرنیلوں کے قدموں پر نچھاور کر دیتی ہے۔ ساڑھے سات ارب انسانوں میں روہنگیا کا نوحہ کون لوگ پڑھیں اور کن کو سنائیں،

[pullquote]اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا کردار[/pullquote]

مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان، بوسنیا سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں مقہورین کی فریاد رسی کے لیے پہنچنے والا اقوام متحدہ میانمر حکومت کے خلاف اپنی ہی رپورٹ کو تسلیم کروا سکا اور نہ ہی روہنگیا کے لوگوں کے لیے زندگی اور شہریت کا حق دلا سکا۔

مورخ لکھے گا کہ اٹھائیس ممالک کی اتحاد یورپی یونین اپنی غیر معمولی اثر رسوخ کے باوجود وہ میانمر کے جابر فوجی جرنیلوں کو طاقت کے بہیمانہ استعمال سے نہ روک سکی۔ دنیا کو انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور جمہوریت کا درس دینے والا متحدہ ریاست ہائے امریکہ اپنے چالیس اتحآدی ممالک کے ہمراہ عسکری مہم جوئیوں میں مصروف تھا، روہنگیا کے لیے میانمر کے ہمسایہ ملک چین نے کچھ کیا اور نہ دوسرے ہمسایہ انڈیا نے، روس سمیت دیگر ممالک بھی تماشائیوں میں‌شامل تھے. انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں‌ بھی میانمر حکومت اور عالمی برادری کو روہنگیا کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے پر تیار نہ کر سکیں.

[pullquote]سوشل میڈیا پر حالیہ ردعمل[/pullquote]

مگر مختلف ممالک، اقوام اور مذاہب سے انسان دوست لوگوں نے سوشل میڈیا کے توسط سے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش شروع کی ہے، ہم بھی اس کاروان میں شامل ہیں کہ کم از کم جب ضمیر کی عدالت میں پوچھا جائے گا کہ روہنگیا کے کٹتے جلتے اور چیختے چلاتے لوگوں کے لیے تم نے کیا کیا، تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم پتھر مارنے والوں میں شامل تھے اور نہ ہی تماشہ بینوں میں، لاتعلقی کا اظہار کرنے والوں‌میں‌بھی ہم شامل نہ تھے بلکہ ہم بھی ان کے ہمنوا بن کر چیختے رہے، چلاتے رہے، نہ رات کی نیند کی اور نہ دن کا کام، ہمارے پاس سیاسی اختیار تھا اور نہ ہی اقتصادی فیصلے، بس ہمارے ہاتھ میں قلم اور حلقہ احباب میں کچھ انسانی ہمدردی سے سرشار دوست شامل تھے، انہی سے مل کر روہنگیا کا اجتماعی نوحہ پڑھتے اور لکھتے رہے اور عالمی رائے عامہ کو روہنگیا کے لیے کچھ کرنے پر تیار و ہموار کرنے کی کوشش میں‌اپنا حصہ ڈالتے رہے.

کیا آپ بھی اس چیخ و پکار کی مہم میں‌ شامل ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں‌ نہیں‌، اور اگر شامل ہیں‌ہیں‌ تو آپ نے ابھی تک کیا کیا ہے؟

مضمون کی اگلی قسط میں‌روہنگیا کے بارے میں‌اعداد و شمار اور تاریخی پس منظر پر معروضی حقائق پر مشتمل تجزیہ شامل ہے.

#stop_violence_against_rohingyas

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے