یزید کے دفاع میں‌ مذہبی و لبرل دلائل کا تنقیدی جائزہ

ہر سال جب بھی محرم کا مہینہ آتا ہے تو مسلم دنیا خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں واقعہ کربلا کے بارے میں حساسیت اور بحث بہت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں مختلف طبقات فکرو عمل کے نقطہ ہائے نظر میں بھی شدت دکھائی دیتی ہے۔ انہی میں سے ایک طبقہ وہ ہے جو مختلف بنیادوں پر واقعہ کربلا سے یزید کو بری الذمہ قرار دے کر اسے بھی تقدس کا لبادہ پہنانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس طبقے میں مذہبی و لبرل دونوں طبقات شامل ہیں۔ آئیں ان کے استدلالات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ یہاں پر مختلف فیہ اور گھڑی ہوئی روایات اور فریقین کے عزائم کے بجائے محض امر واقع کی بنیاد پر اظہار رائے کرنے کی کوشش کی گئی ہے.

[pullquote]مذہبی پہلو[/pullquote]
ایک طرف سارے مسلمان مانتے ہیں کہ قرآن قیامت تک کے لیے میزان ہے۔ دین میں کوئی نسبی، سیاسی، سماجی ،رنگ و نسل کی فوقیت کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور اللہ کے نزدیک فضیلت کا معیار بلا تخصیص ایمان اور عمل صالح قرار دیا گیا ہے۔

قرآن کہتا ہے من قتل مومنا متعمدا ۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو ایک مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہو جاتا ہے، دوسری جگہ ایک بے گناہ انسان کے قتل کو قرآن پوری انسانیت کے قتل کا مترادف قرار دیتا ہے۔

نیز قرآن میں فرعون, عزیز مصر سمیت دیگر ذکرکردہ حکمرانوں کی پالیسیوں کا براہ راست ذمہ دار انہی کو ٹھہرا گیا ہے. (مثلا فرعون کے دور میں لڑکیوں کی عصمت دری اور بچوں کے قتل کو جو کہ یقینا اس کی فوج کے ہاتھوں انجام پاتے تھے مگر قرآن میں مفرد کا صیغہ یعنی یستحیی و یقتل کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے انہیں فرعون کے جرائم میں شمار کیا گیا ہے)

دوران جنگ تلوار کے خوف سے کلمہ پڑھنے والے مقاتل کے قتل کے معاملے میں اپنے ہی صحابی کے عمل سے براءت کا اظہار سمیت انسانی جان کے تقدس اور عدل و انصاف کی باریکیوں کا خیال رکھنے کی نبوی تعلیمات سمیت خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے تعاملات اس موضوع پر اصرار اور حساسیت کے برملا اظہار کے لیے بہت کافی ہیں۔

جبکہ سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے پکے مسلمان صارفین بطور مذہبی علماء و دانشور نظر آ رہے ہیں جو جس رسول کا کلمہ پڑھ کر مسلمان بنتے ہیں اسی رسول کے نواسے کو (جن کو جنت کے سید و سردار بتایاگیا ہے) بلا جرم انتہائی بہیمانہ و مظلومانہ انداز میں اپنے اقارب و انصار سمیت قتل کرنے والے، نبی کی مسجد اور اللہ کے گھر یعنی مسجد نبوی اور بیت اللہ کی حرمت پامال کرنے والے سینکڑوں بے گناہ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے قتل میں ملوث اور سینکڑوں عورتوں کا ریپ کرنے اور کروانے والے بدکرداروں کو جنتی بنانے، رحمہ اللہ ٹھہرانے اور لعن طعن سے بچانے اور امیرالمومنین بنانے پر تلے ہوئے ہیں وہ بھی چودہ صدیاں گزرنے کے بعد۔

ارے یہ وہی طبقہ ہے جسےسینکڑوں لوگوں کو بموں اور خودکش حملوں سے اڑانے میں جہاد، نفاذ شریعت اور اسلام کی سربلندی نظر آتی ہے۔ انسانی خون سے کھیلنے والے درندوں میں اسے”غیرت مسلم” دکھائی دیتی ہے۔

یہ وہی لوگ ہیں جو امریکی صدر بش کو عراق و افغانستان پر حملے کا، مشرف کو لال مسجد واقعے کا، بشار الاسد کو حلب کی تباہی کا، نریندر مودی کو کشمیر میں حریت پسندوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا، آنگ سان سوچی کو تو روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی ذمہ دار سمجھتے ہیں مگر قرآن و سنت اور قانون و سیاست کے سارے قدیم و جدید اصول کو معطل سمجھتے ہوئے یزید لعین کے لیے کمال مہربانی اور و کمال استدلال سے گنجائش نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ واقعہ کربلا کا ذمہ دار یزید نہیں تھا۔ نواسہ رسول کے قتل میں اس کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اسے تو اس پورے واقعے کا سرے سے پتہ بھی نہیں تھا چنانچہ جب خانوادہ رسالت کے بچے و خواتین قیدی بن کر اس کے دربار میں پہنچا تب پتہ چلا اور بہت افسردہ ہو گیا اور ساتھ ہی نہایت احترام کے ساتھ آل رسول کے لٹے ہوئے قافلے کو مدینہ واپس بھیج دیا۔ (قابل تشویش امر یہ ہے کہ یہی بیانیہ ہماری قومی جامعات کے اسلامیات اور تاریخ کے نصابی کتب میں بھی اسی طرح درج ہے)
ان نام نہاد مذہبی مفکرین و دانشوروں کو خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام لینے میں ذرہ برابر شرم بھی محسوس نہیں ہوتی جو دربار میں خلیفہ وقت سے رعایا کی شکایتوں اور سوالات کو براہ راست سنتے اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر تے اور رعایا کی شکایتوں کا ازالہ فرماتے۔ آپ ہی نے فرمایا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کا حساب خلیفہ وقت عمر سے لیا جائے گا۔

او اللہ کے بندو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اسی فرات کے ہی کنارے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے محض چھتیس سال بعد رسولِ اسلام کے نواسے کو پورے خاندان سمیت بھوکا پیاسا رکھ کر مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ منظم و مسلح سرکاری فوج کے ذریعے مار دینے والے ظالم و جابر یزید لعین کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں؟

حالانکہ اس طبقے کا عمومی مزاج یہ ہے کہ ان لوگوں کو کسی غیر مسلم کے ہاتھوں انجانے میں بھی کسی مقدس کاغذ کے جلنے کا محض تاثر مل جائے تو پورا ہجوم اکھٹا کر کے اسے کوٹ کوٹ کا جان سے مار دیتے ہیں۔ مگر یہی طبقہ کربلا میں نواسہ رسول کی منظم نسل کشی کرنے والوں، مسجد نبوی اور کعبۃ اللہ کی شرمناک اور کھلی توہین کرنے والوں کو کس قدر گنجائش دینے کے لیے کمر بستہ دکھائی دیتا ہے۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ یزید لعین کے معاملے میں آپ کے حسن ظن، چشم پوشی اور جذبہ رحمت و الفت کو اکیس توپوں کی سلامی ہو۔

ایسے دوستوں سے گزارش ہے کہ یا تو آپ اسلام کی تعلیمات اور اصولوں کی بات کریں اور ان کی تطبیق کے زد میں جو بھی آئیں ان سے وہی سلوک کریں جو اصولوں کا تقاضا ہو یا آپ یہ کہہ لیں کہ اسلام تعلیمات اور اصولوں کے بجائے کسی خاص عہد کی شخصیات کو ہی میزان ٹھہراتا ہے اور اس کی کوئی اپنی مستقل و آفاقی تعلیمات و اصول نہیں ہیں جو ماضی و حال پر یکساں لاگو ہو سکیں۔ بلکہ ان شخصیات کا ہر عمل میزان ہے چاہے وہ ایک سو اسی ڈگری کی حد تک متضاد کیوں نہ ہو۔

واضح رہے یہاں سلوک سے میری مراد لوگوں کے ایمان و اسلام، دیانت و خلوص کے فیصلے نہیں بلکہ ظاہری اعمال سے متعلق واضح نقطہ نظر اپنانا مقصود ہے۔

[pullquote]لبرل پہلو[/pullquote]
اپنے آپ کو لبرل طبقے سے وابستہ کہلانے والوں کا طرز عمل بھی قابل تعجب ہے کہ وہ بھی یا تو یزید جیسے ظالم و جابر کا دفاع کرنے پر کمربستہ نظر آتے ہیں یا مذہبی رسومات پر معترض ہیں، بعض اوقات وہ مخالف طبقہ کی تحقیر سے بھی باز نہیں آتے۔ لبرل دوستوں کے لیے عرض ہے کہ انسانی جان کے تقدس، مذہبی آزادی، آزادی اظہار رائے، فلسفہ صبر اور عدم تشدد پر مبنی مزاحمت اور انسانی اقدار کے تحفظ کے لیے اسلامی تاریخ میں واقعہ کربلا سے بڑھ کر قربانی کی کوئی بڑی اور اثر انگیز مثال ہے تو اسے پیش کریں ورنہ حضرت امام حسین کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے والے ہر انسان کو تحقیر آمیز انداز میں "شیعہ” ہونے کی پھبتیاں کس کراپنی لبرلزم کی اوقات نہ دکھائیں۔ آپ کے مقتدیٰ و پیشوا مغربی ممالک میں بھی انسانی اقدار و جذبات کو محض ریشنل فارمولوں پر نہیں پرکھا جاتا ہے۔ ہاں البتہ یہاں میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ انسانی عزم اور جذبات کے تعمیری اور تخریبی استعمال پر شعوری حساسیت پائی جاتی ہے۔

لبرلزم اصولی طور پر ایسی مذہبی آزادی اور احترام انسانیت کی قائل ہے کہ اگر تشدد اور سماجی منافرت کا عنصر شامل نہ ہو تو ریاست ہر رسم اور ہر عبادت کو (اگر کوئی چاہے تو) سر عام اور سر راہ کرنے پر سہولت فراہم کرے گی چنانچہ آپ لبرل/سیکولر ممالک میں دیکھ سکتے ہیں ہر رنگ و نسل اور مسلک و مذہب کو اپنی ثقافت کے اظہار اور مذہبی رسومات و عبادات کو سرعام انجام دینے کی سہولت یکساں حاصل ہیں۔

اگر آپ صحیح معنوں میں لبرلزم کے قائل ہیں تو آپ کس بنیاد پر کمربستہ ہو کر لوگوں کی مذہبی آزادیوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں؟ جدید لبرلزم اختلافات کو سیلی بریٹ کرنے کی تلقین کرتی ہے نہ کہ ان کی مخالفت کر کے اپنی رائے ٹھونسے کی۔

[pullquote]ایک عمومی پہلو [/pullquote]

کچھ لوگ خوشی و غم کے اظہار پر مذہبی و لبرل بنیادوں پر معترض ہیں۔ یاد رکھیں انسانی زندگی میں درد اور المیے کے سامنے دلیل اور منطق بے اثر ہو جاتی ہے۔ (کوئی بندہ پانی میں ڈوب کر مر رہا ہو یا کوئی آگ میں جھلس کر چیخ رہا ہو تو ایسی چیخ و پکار کے سامنے آپ کی فکر انگیز تحقیق و استدلال کی حیثیت ثانوی سے بھی گر جاتی ہے)

یہ بھی واضح رہے کہ انسان محض عقلی وجود نہیں رکھتا۔ انسان کا جذباتی وجود بھی اس کے ان خواص میں سے ہیں جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کر دیتے ہیں۔

تمام علوم اور انسانی معاملات کی بنیاد محض تفکر و تعقل پر استوار نہیں ہے۔ نیز انسانی ارتقاء محض عقلی کلیوں کی مرہون منت بھی نہیں ہے، اس میں رشتوں کا تقدس و قربانی، دردمندی و ہمدردی، و احسان و احساس۔ محنت و مشقت، عزم و حزم، محبت و احترام، نفرت و دشمنی، خوشی، غم، دکھ درد اور دیگر جذباتی حرکیات انسانی تہذیب کا جزء لا ینفک رہی ہیں۔ ان کی اثر انگیزی کے مثبت یا منفی پہلووں پر بات ہو سکتی ہے مگر اس کا انکار کر دینا انسانی سیراب تہذیب کو بنجر بنانے کی مترادف ہے۔

جس دن انسان محض ریاضیاتی اصولوں کے پابند ہو گئے اس دن سے زندگی کے آثار ماند پڑ جائیں گے۔ اس جہاں میں نہ کوئی خوشی، نہ غم، نہ دکھ اور نہ درد، نہ رشتہ اور نہ ہی کوئی تعلق باقی رہے گا ایسی زندگی صرف مشینوں اور زندہ لاشوں کی تو ہو سکتی ہے زندہ انسانوں کی زندگی نہیں۔ ہاں اس بات کی اہمیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ عشق، عقیدت، جنون اور جذبے کو شتر بے مہار کی طرح کھلا نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ انہیں نظم اجتماعی اور انسانی فلاح و صلاح کے ماتحت رکھتے ہویے منظم کر کے تعمیری رخ دینا چاہیے اور تشدد و منافرت کے باعث بننے والی ہر حرکت و سوچ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ اسی میں سب کی بقا اور ارتقاء مضمر میں ہے۔

[pullquote]انتظامی پہلو[/pullquote]
جہاں تک نقص امن یا سماجی زندگی میں حرج کے خدشے کے باعث مذہبی رسومات کو چار دیواری تک محدود کر نے کا ’’ٹھوس’’ استدلال ہے اس پر یہ تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ پہلے تو پاکستان میں ایسا پُراعتماد اور محفوظ ماحول بنانے کے لیے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ کسی بھی مذہبی و سیاسی طبقے کو کسی قسم کے خوف کے تحت اس کے حقوق سے محروم نہ کیا جائے، دوسری بات یہ بھی ہے اسی خدشے کے تحت سیاسی، سماجی، تبلیغی، جماعتی، تنظیمی سرگرمیوں کو بھی چار دیواری تک محدود کرنے کا مطالبہ بھی کر دینا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ دہشت گردوں کو لگام اور عوام کو خوف سے آزادی دلانے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ برعکس کام کیا جائے۔
اسلام اور لبرلزم کے لبادے اوڑھ کر روز روشن کی طرح واضح ظلم کے لیے جواز تراشنے اور اس کے دفاع کرنے کو کنفیوژن، منافقت یا عصبیت کیا نام دیا جائے؟
[pullquote]
اُس قوم کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا جو ظلم کے دفاع کے لیے کمر بستہ ہوجائے۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے