چھبیس ستمبر کی سہ پہر پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے پانامہ اور اقامہ کی تنگنائے سے نکل کر وسیع تر سیاسی بحران کے خدوخال بیان کیے۔ اس پریس کانفرنس کے اختتام پر شرکائے مجلس میں سوال و جواب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اندیشہ تھا کہ لکھے ہوئے بیان میں پیش کردہ نکات غبار آلود نہ ہو جائیں۔ اس پر کچھ صحافی ناراض بھی ہوئے۔ نواز شریف صاحب نے کہا کہ ’’ہماری تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جن کا ذکر کرتے ہوئے بھی ندامت ہوتی ہے۔ اہلیت اور نااہلی کے فیصلے کرنے کا آئینی حق بیس کروڑ پاکستانیوں سے نہ چھینا جائے۔ 2018ء میں ایک فیصلہ آئے گا جو مولوی تمیز الدین جیسے فیصلوں کو بہا لے جائے گا۔ ستر سالہ پرانے کینسر کا علاج کرنا ہو گا۔ میں نے حقیقی مقدمہ لڑنے کا تہیہ کر لیا ہے اور یہ مقدمہ قائد اعظم کے پاکستان، آئین، قانون، لوگوں کے حق حکمرانی، ووٹ کے تقدس اور ستر برس کے دوران نشانہ بننے والے وزرائے اعظم کا مقدمہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آخری فتح عوام اور پاکستان کی ہو گی‘‘۔
غور کرنا چاہیے کہ قائداعظم کے پاکستان سے کیا مراد ہے؟ مولوی تمیز الدین کا مقدمہ کیا تھا؟ اور یہ ستر برس پرانا کون سا ناسور ہے؟ یہ سنجیدہ سوالات ہیں، 2017ء کے موسم خزاں میں درست تاریخی تناظر میں بات نہ کی گئی تو 2018 ء کے موسم گرما میں ناقابل تصور بحران پیدا ہو جائے گا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپریل 1943ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی اجلاس میں فرمایا تھا کہ ’پاکستان کے آئین اور حکومت کا فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے‘۔ اس اجلاس میں قائد اعظم نے ڈاکٹر عبدالحمید قاضی کی مذہبی آئین کے بارے میں قرارداد پیش کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ سات اپریل 1946ء کو دہلی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ ’ہم ایک مذہبی حکومت یا ملائی ریاست کے لئے جدوجہد نہیں کر رہے‘۔ رائٹر کے نامہ نگار مسٹر ڈون کیمپ بل کو انٹرویو دیتے ہوئے21 مئی 1947ء کو قائد اعظم نے فرمایا، ’’پاکستان کی حکومت مقبول، نمائندہ اور جمہوری ہی ہو سکتی ہے۔ اس کی پارلیمنٹ اور کابینہ حتمی طور پر رائے دہندگان اور عوام الناس (بلا تمیز رنگ و نسل، عقیدہ، ذات پات یا مسلک) کے سامنے جوابدہ ہوں گی۔ عوام قطعی اور حتمی حاکم ہوں گۓ‘‘۔ اور پھر قائد اعظم نے گیارہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کا افتتاح کرتے ہوئے ایک جدید، جمہوری اور غیر متعصب پاکستان کا نصب العین دیا۔ قائد اعظم پاکستان کے لوگوں کی حکمرانی کا خواب دیکھتے تھے۔ قائد اعظم کا پاکستان اس زمین پر بسنے والے عوام کا پاکستان ہے۔
مولوی تمیز الدین کا مقدمہ تو گیارہ نومبر 1954 کو سندھ کی چیف کورٹ میں پیش کیا گیا۔ گویا تریسٹھ برس پرانی بات ہے۔ نواز شریف نے ستر برس پرانے ناسور کا ذکر کیسے کر دیا؟ تاریخی طور پر نواز شریف درست کہتے ہیں۔ 26 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے کشمیر میں فوج اتار دی۔ قائداعظم نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل گریسی کو 27 اکتوبر کی شام حکم دیا کہ ’راولپنڈی سرینگر روڈ کے درے پر قبضہ کرو اور پھر سری نگر جموں روڈ پر واقع درہ بانہال پر قبضہ کر کے بھارتی فوج کی رسد کاٹ دو‘۔ جنرل ڈگلس گریسی نے قائد اعظم کی حکم عدولی کرتے ہوئے دہلی میں فیلڈ مارشل آکن لیک کو اس حکم کے بارے میں مطلع کر دیا۔ سیاسی قیادت کی حکم عدولی کرنے سے ایک ناسور پیدا ہوا۔ یہ ووٹ اور بندوق میں اختیار کی کشمکش ہے۔ برطانوی ہندوستان میں اقتدار کی بنیاد چھاؤنی میں رکھی جاتی تھی۔ پاکستان کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اقتدار کی کونپل پارلیمنٹ کے فلور سے پھوٹے گی۔
مولوی تمیز الدین کا مقدمہ ریاستی اداروں اور عوام کے حق حکمرانی میں عدلیہ کے فریق بننے کی حکایت ہے۔ 10 مئی 1955 کو جسٹس محمد منیر نے دستور ساز اسمبلی کی برطرفی سے متعلق مقدمے ’مولوی تمیز الدین بنام وفاق پاکستان‘ میں فیصلہ دیا تھا کہ ’جو عام حالات میں غیر قانونی ہوتا ہے اسے ضرورت کے تحت قانونی قرار دیا جا سکتا ہے‘۔ جسٹس منیر نے اسے قانونی لاقانونیت (Legalized Illegality) کی ترکیب بخشی تھی۔ تین برس بعد27 اکتوبر1958 کی شام ڈوسو کیس میں نظریہ ضرورت کا پھر سہارا لیا گیا۔ اسی رات تین جنرل صاحبان صدر اسکندر مرزا سے استعفیٰ لینے ان کے گھر گئے تھے۔ اس موقع پر پستول کی موجودگی نظریہ ضرورت کا عملی اظہار تھی۔ ٹھیک بیس برس بعد نصرت بھٹو بنام وفاق پاکستان میں ایک بار پھر نظریہ ضرورت میں پناہ ڈھونڈی گئی۔ بیس برس مزید گزر گئے۔ 1999 میں ظفر علی شاہ کیس میں نظریہ ضرورت کے تحت پرویز مشرف کو تین سال کے لئے اقتدار کا حق دیا گیا۔ نظریہ ضرورت کے تین فریق ہیں۔ تمثیل کا سہارا لیا جائے تو اس مقدمے میں عوام مدعی ہیں۔ تمیز الدین عوام کے وکیل ہیں۔ جسٹس منیر عدالت کا چہرہ ہیں اور مدعا علیہ کا فیصلہ آپ خود کر لیں۔
ایسا نہیں کہ ہماری تاریخ میں مدعا علیہ کی نشاندہی کبھی کی ہی نہیں گئی۔ اپریل 1972ء میں عدالت عظمیٰ نے عاصمہ جیلانی کیس میں یحییٰ خان کو غاصب قرار دیا تھا لیکن اس سے چار ماہ پہلے دسمبر 1971 میں پاکستان دو ٹکڑے ہو چکا تھا اور یحییٰ خان حفاظتی تحویل میں تھے۔ حاجی سیف اللہ کیس (1988) میں جنرل ضیاالحق کے ہاتھوں محمد خان جونیجو کی برطرفی کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ مشکل یہ ہے کہ قانون کے صفحات میں قبر کشائی نہیں ہوتی اور کچھ باتیں وسیم سجاد اور جنرل اسلم بیگ بہتر جانتے ہیں۔ اکتیس جولائی 2009 کو سپریم کورٹ نے ہمیں نوید دی تھی کہ نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ دینے والے چیف جسٹس ماضی میں دو مرتبہ عبوری آئینی حکم کے تحت حلف اٹھا چکے تھے۔ ہماری تاریخ پیچیدہ ہے۔ بھٹو صاحب سات اکتوبر 1958ء کی شام مارشل لا کے جلو میں پاکستان کے سیاسی منظر پہ رونق افروز ہوئے تھے۔ 1973ء میں پاکستان کے متفقہ دستور کی منظوری کے بعد بھٹو صاحب نے پاکستان کے رہنے والوں کو خوشخبری دی کہ مارشل لا کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا گیا ہے۔ 5 جولائی 1977ء کو یہ مردہ کفن پھاڑ کر باہر نکل آیا اور گیارہ برس تک قوم کے احترام پر کوڑے برساتا رہا۔ 1997ء میں آئینی ترمیم کے ذریعے اٹھاون ٹو بی کو ختم کرتے ہوئے مژدہ سنایا گیا تھا کہ جمہوری عمل میں ماورائے آئین مداخلت کا راستہ روک دیا گیا ہے۔ ہم سادہ ہی ایسے تھے، کی یوں ہی پذیرائی، جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی۔ یہ تو رہے ہمارے فیض صاحب اور استاذی قیوم نظر لکھتے تھے؛
کب مٹتا ہے شوق دید دیکھیں
کب دیکھتے ہیں نگاہ والے
تو جنہیں نگاہ ودیعت کی گئی ہے، جنہیں انصاف کی میزان سونپی گئی ہے، اور جن کے گلے میں تاریخ کا کتبہ آویزاں کر دیا گیا ہے، انہیں خبر ہو کہ مولوی تمیز الدین کا مقدمہ ہنوز زیر سماعت ہے۔ زمین کے بیٹے غلام گردشوں میں سربزانو ہیں۔ جمہوریت کٹہرے میں ہے، عوام کے مینڈیٹ پر فرد جرم عائد کی جا رہی ہے اور نظریہ ضرورت اشتہاری ہو چکا ہے۔ اس پر ایک گواہی ہم سے لی جائے۔ بائیس اپریل 1960ء کو پاکستان کے چیف جسٹس کے منصب جلیلہ سے ریٹائر ہونے کے بعد لاہور بار ایسوسی ایشن سے الوداعی خطاب میں جسٹس منیر نے اعتراف کیا تھا کہ ’دس مئی 1955 کو (مولوی تمیز الدین کیس میں) فیڈرل کورٹ کا فیصلہ حالات کے دباؤ کا نتیجہ تھا… اس مقدمے نے ججوں کو جس ذہنی اذیت سے دوچار رکھا، الفاظ اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ دنیا میں کبھی بھی ججوں کو ایسے عمل سے نہیں گزرنا پڑا ہو گا جسے عدالتی ایذا رسانی قرار دیا جا سکتا ہے۔