آزاد کشمیر میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی شرح پاکستان کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔آزاد کشمیر جیسے چھوٹے خطے میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی اوسط سالانہ 240 افراد ہے اور اس میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔ اس اعتبار سے یہ تعداد بلوچستان اور اسلام آباد سے تعداد کے اعتبار سے جبکہ پاکستان میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی شرح(Average) سے کہیں زیادہ ہے۔( 40 لاکھ آبادی پر مشتمل5134 مربع میل رقبے والے خطے میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی اوسط تعداد 240 افراد سالانہ جبکہ 20 کروڑ آبادی میں روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے والوں کی سالانہ اوسط 4300 افراد ہے)۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی شرح میں کمی جبکہ آزاد کشمیر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو 2016 میں پاکستان میں 4150 افراد جانبحق ہوئے اس کی نسبت دیکھا جائے تو 2006 میں ٹریفک حادثات میں مرنے والوں کی تعداد 5615 تھی۔ایک اندازے کے مطابق ٹریفک حادثات میں اسلام آباد میں 160 افراد ،پنجاب میں 1950 افراد ،سندھ میں 750 افراد سالانہ ، خیبر پختونخواہ میں 1100 افراد اور بلوچستان میں تقریبا 180 افراد سالانہ ٹریفک حادثات میں موت کا شکار بنتے ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران آزاد کشمیر میں 494 افراد ٹریفک حادثات میں لقمہ اجل بنے جو پہلے کی نسبت بڑھ رہی ہے۔ جن میں راولاکوٹ میں 71 ، باغ میں 24 ، کوٹلی میں 29،میرپور میں 32، بھمبر میں 5 ، حویلی میں30 اور سدھنوتی میں 51 افراد لقمہ اجل بنے۔ نیلم میں 2014 سے اب تک 71جبکہ مظفرآباد میں 2014 سے ابتک 182 افراد ٹریفک حادثات میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جنمیں 139 افراد گاڑیوں جبکہ 42 افراد موٹرسائیکل حادثات کا شکار ہوئے۔ (خیال رہے کہ آزاد کشمیر کے حوالے سے یہ اعداد و شمار ضلعی انتظامیہ سے حاصل کیے گئے ہیں اور مذکورہ تعداد کی انشورنش کلیم کیلئے ڈپٹی کمشنر آفس میں عرضی دی گئی۔ بے شمار کیسز ایسے ہیں جن کا ریکارڈ انتظامیہ کے پاس نہیں ہے)۔
آزاد کشمیر میں ٹریفک حادثات کی کئی وجوہات سمیت بنیادی سبب شاہرات کی خستہ حالی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں آزاد کشمیر کی گوئیں نالہ روڈ(راولاکوٹ کو راولپنڈی سے ملانے والی شاہراہ) پر ہونے والے کئی حادثات میں ایک ہی جگہ (فلور مل کے سامنے) پر تین بڑے حادثات ہوئے جو درجنوں افراد کی موت کا سبب بنے اس کے باوجود وہاں کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی شاہرات پر خطرناک مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ٹریفک پولیس کے مطابق آزاد کشمیر میں 234 خطرناک مقامات کی نشاندہی کی اور حفاظتی اقدامات کی تجویز کی لیکن ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے۔
ٹریفک پولیس آزاد کشمیر کے سربراہ ڈاکٹر لیاقت کے مطابق حادثات کی بڑی وجہ روڈ سیفٹی فیچرز پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حادثات زیادہ تر ان شاہرات پر ہوتے ہیں جو آزاد کشمیر کو پاکستان سے ملاتی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خطرناک’’ گوئیں نالہ روڈ‘‘ ہے جو راولاکوٹ کو راولپنڈی سے ملاتی ہے ۔اس کے علاوہ مظفر آباد کی لنک روڈزکا انہوں نے خصوصی ذکر کیا جو حکومتی عدم توجہی کا شکار ہونے کیوجہ سے حادثات کا باعث بنتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حادثات میں زیادہ جانیں پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کے حادثات کی وجہ سے ضائع ہوتی ہیں اور اس میں سب سے بڑا مسئلہ اوور لوڈنگ کا ہے ۔ٹریفک قوانین کے مطابق ایک عام گاڑی(ویگن ) میں قانون کے مطابق ڈرائیور سمیت 13 افراد کو سوار ہونے کی اجازت ہے لیکن اس کی خلاف وزری معمول بن چکی ہے اور ڈرائیور سمیت 20 افراد ایک گاڑی میں سوار ہوتے ہیں۔
حادثات کی ایک دوسری وجہ ٹرانسپورٹرز کی جلد بازی یا گاڑی چلاتے وقت غفلت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اس بات کا حکومت بھی شدت سے راگ الاپتی ہے اور حکومتی سطح پر ہر حادثے کو ڈرائیور کی غفلت سے جوڑا جاتا ہے جو کسی حد تک درست ہے لیکن اسے صرف ڈرائیور کی غفلت قرار دے کر پردہ ڈالنا درست نہیں ہے کیونکہ قانون سازی ، لائسنس کا اجرااور سڑکوں کے اطراف حادثات کے بچاؤ کیلئے حفاظتی اقدامات کرنا حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے، لیکن آزاد کشمیر میں ڈرائیونگ لائسنس میرٹ(عملی ٹیسٹ اور قوانین کے بارے انٹرویو) کے بجائے تعلق کی بنا پر جاری کئے جاتے رہے ہیں جس کا اعتراف ڈی آئی جی ٹریفک پولیس نے بھی کیا اور بتایا کہ ماضی میں غفلت پائی جاتی تھی اور تعلق کی بنا پر ڈرائیونگ لائسنس جاری کر دیا جاتا تھا تاہم اب ایسا نہیں ہو رہا۔ اب ڈرائیونگ لائسنس کڑی شرائط پر جاری کیا جاتا ہے اورلائسنس جاری کرنے کیلئے سخت ٹیسٹ لیا جاتا ہے۔ ٹریفک حادثات اور شاہراؤں کی خستہ حالی کے بارے میں راقم نے جب وزیرمواصلات آزاد کشمیر چوہدری عزیز سے بات کی تو انہوں نے حادثات کو ٹرانسپوٹرز کی غلطی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ شاہرات کی مرمت اور حفاظتی اقدامات کیلئے آزاد حکومت نے موجودہ مالی سال میں 9 ارب روپے مختص کر رکھے ہیں اور کچھ شاہرات کی مرمت کیلئے ایشین ڈیویلپمنٹ بنک نے بھی فنڈنگ کا وعدہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ آزاد کشمیر میں موجودہ حکومت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن شاہرات کی تعمیر و مرمت کیلئے کوئی عملی اقدامات شروع نہ کئے جا سکے .
آزاد کشمیر کے کچھ ٹرانسپورٹرز نے بتایا کہ ٹریفک حادثات کی ایک وجہ ٹریفک پولیس کا گاڑیوں کی حالت(Maintenance) چیک نہیں کرتی اور اڈے والوں کے تعلق کی وجہ سے کوئی بھی گاڑی چلائی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوائے خصوصی چیکنگ کے ہمیں جرمانہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ ہم ماہانہ بنیادوں پر حکام کوبذریعہ ٹرمینل (مقامی اڈا) ادائیگی کرتے ہیں جو ماہانہ پانچ سو سے سات سو تک ہے(یہ رقم اگر پورے آزاد کشمیر جمع کی جائے تو سالانہ اربوں روپے کی رقم بنتی ہے)۔
اس بارے جب ٹریفک حکام سے جاننے کی کوشش کی گئی تو ڈاکٹر لیاقت نے بتایا گیا کہ بڑی سے بڑی خلاف ورزی پر ایک ہزار تک کا جرمانہ ہوتاہے جس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کیلئے انہوں نے سعودی عرب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں صرف اوور اسپیڈ پر 500 ریال (تقریبا 18 ہزار پاکستانی روپے) جرمانہ ہے ایک مرتبہ وہ جرمانہ ادا کرنے والا دوبارہ ایسی خلاف ورزی کی سوچتا بھی نہیں ہے۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس نے آزاد حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کو قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ بڑھانے کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے تاکہ اس خوف سے قوانین کی پاسداری کی جائے اور حادثات کا خطرہ کم ہو سکے۔
اس کے علاوہ آزاد کشمیر کے داخلی پوائنٹس پر کشمیر کونسل مرکزی شاہرات کے حفاظتی اقدامات کیلئے مال بردار اور پبلک ٹرانسپورٹ سے ٹیکس کی مد میں سالانہ اربوں روپے جمع کرتی ہے لیکن اس رقم سے شاہرات کی بہتری اور حفاظت کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جاتے۔اس بارے میں بات کرتے ہوئے کشمیر کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری فنانس کا کہنا ہے کہ یہ رقم آزاد حکومت کو دے دی جاتی ہے کیونکہ شاہرات کا محکمہ حکومت کے پاس ہے ۔
ایسے میں حکومت آزاد کشمیر کو چاہیے کہ وہ ٹریفک حادثات اور سیاحت کے فروغ کیلئے شاہرات کی حالت کو درست کرے۔ آزاد حکومت اور کشمیر کونسل میں اس مد میں سالانہ اربوں روپے کے فنڈز ہونے کے باوجود ایک بارش ہونے کے بعد ہماری سڑک اس قدر خراب ہو جاتی ہے کہ اس پر گاڑی چلانا دشوار ہوتا ہے۔ آزاد حکومت اگر ایسے اقدامات نہیں کر سکتی تو حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ آزاد کشمیر کی تمام مرکزی شاہرات کو نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کے انتظام میں لائے تاکہ کم سے کم مرکزی شاہراؤں کو بہتر انداز میں بنایا جا سکے اور حادثات کی شرح میں اضافہ کے بجائے کمی ہو۔