جنگ اور فرقہ واریت کی قیمت

حافظ صفوان احمد

ملتان

۔ ۔ ۔

The-real-cost-of-war 

ایک شوخ اشتراکی انقلابی ایرانی لڑکی نے کہا، سنا ہے آپ نے انقلابِ (ایران) کے دوران ڈائری لکھی ہے. آپ شاید کتاب لکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں. اس میں میرا ذکر ضرور کریں. یہ انقلاب میری عمر کی لڑکیوں کے لیے بہت بھاری ثابت ہوا ہے. جوانی کے وہ سال جو عروسی خوشیوں میں گزارنے تھے وہ انقلابی جد و جہد کی نذر ہوگئے. جد و جہد کامیاب ہوئی مگر سکون میسر نہیں آیا. نوجوان کچھ بادشاہ نے مارے کچھ اس کے بعد آنے والوں نے. کچھ فرار ہوئے, کچھ قید ہوئے. باقی جتنے بچے انھیں محاذِ جنگ پر بھیج دیا گیا. وہاں سے لاشیں واپس آتی ہیں یا معذور. جنگ ختم ہونے میں نہیں آتی کہ نوجوان گھر بسانے کے بارے میں سوچ سکیں. میں تیس برس کی ہونے والی ہوں. میری جیسی لڑکیوں کی تعداد میں جن کی شادی کرنے کی عمر تیزی سے گزر رہی ہے, بہت سی نوجوان اور کمسن بیواؤں کا اضافہ ہو گیا ہے. میرے لیے کیا آپشن رہ گیا ہے؟ عمر بھر معذور دولھا کی وھیل چیئر دھکیلتی رہوں یا وقتی طور پر سیاہ چوغے کے ساتھ متعہ کرلوں؟ انقلاب انسانوں کا ہی نہیں بلکہ ارمانوں کا بھی خون بے دریغ بہاتا ہے…”

اس واقعے پر مختار مسعود نے انقلاب ایران پر اپنا ناول  "لوحِ ایام” ختم کیا تھا ۔

یہ کہانی صرف ایران کی بہنوں بچیوں کی نہیں ہے. فلسطین, شام, عراق, افغانستان ،یمن ، مصر ، پاکستان ،اور کشمیر سمیت تقریبًا تمام مسلم دنیا میں ایسی ہی صورتِ حال ہے. اس وقت ساری دنیا میں اوسطًا چھ سو مسلم نوجوان روزانہ جنگ میں قتل ہو رہا ہے اور کم و بیش اتنے ہی روزانہ معذور ہو رہے ہیں. اسی نسبت سے روزانہ بے سہارا ہوجانے والی عورتوں بچوں کی تعداد ہے. ایک محاذ بند نہیں ہوتا اور دو اور کھل جاتے ہیں. عن قریب مسلم دنیا میں کارآمد اور تندرست نوجوان مردوں کی شدید قلت ہونے والی ہے. ہم پاکستانیوں کو اس کا احساس بہت کم ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں میں مذہب کے نام پر جاری یہ طویل اور لاحاصل علاقائی جنگیں ہماری سرزمین سے ذرا دور ہیں. ہمیں بالکل احساس نہیں ہے کہ ہم اپنا قیمتی انسانی سرمایہ کس بے دردی سے اپنے ہاتھوں ضائع کر رہے اور اسے اپاہج بنا رہے ہیں. اس وقت ہندوستان میں لاکھوں نانیاں دادیاں ہیں جو مسلمان تھیں لیکن تقسیم کے فسادات کی وجہ سے انھیں ہندو اور سکھ اولادیں جنم دینا پڑیں. اگر موجودہ قتل و غارت گری نہ رکی اور مسلمان نوجوان یوں ہی قتل اور معذور ہوتے رہے تو قریب یے کہ ہماری مسلمان عورتیں یہودی اور عیسائی بچے پیدا کریں. اللہ ہمیں سمجھ دے.

 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے