سوچتے ہیں کیا لکھیں ؟

دوست کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے حالات پر کچھ لکھو ۔۔۔ کیا لکھوں اور کیسے لکھوں!!

ہم بھی تو انسان ہیں ناں گوشت پوست کے بنے ہوئے ۔۔۔ مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے ہوئے ۔۔۔ کبھی سیدھے اور کبھی ٹیڑھے ۔۔۔ کبھی صاف گو اور کبھی دوغلے ۔۔۔ کبھی من میں وہ سمایا جو دل نے کہا اور کبھی من دماغ و عقل کا ہمنوا ہوگیا ۔۔۔!!

رضوی صاحب ۔۔۔جی ہاں ان کی تقریریں میں نے کئی سال قبل یوٹیوب سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سننا شروع کی تھیں۔ زبان سخت استعمال کرتے تھے مگر پنجابی لہجے کی مٹھاس اور اقبال کے کلام کی محبت میں گندھا ہوا ان کا اسلوب بہرحال مجھے بھلا ہی لگتا تھا۔ چہرہ ان کا پرسکون اور پیشانی روشن تھی جسے میں کسی غازے کا کمال نہیں سمجھتا تھا ۔۔۔ سنتے یہی تھے کہ مخلص بندہ تھوڑا تلخ ہو ہی جاتا ہے اور رضوی صاحب تو کسی حادثے کی سبب معذور بھی ہوچکے تھے ۔۔۔ سو ان کی آگ برستی "وہابڑوں” کی خلاف تقاریر کو ہم انجوائے ہی کرتے رہے۔

پھر ممتاز قادری کو پھانسی ہوئی۔ اس سے پہلے رضوی صاحب اسٹیجوں پر جلالی و قریشی کشمکش میں اوپر نیچے چلتے رہے۔ ہم چونک اٹھے اس وقت جب پھانسی کے بعد رضوی صاحب نے میڈیا کی موجودگی میں داتا دربار پر آتش دہن میں لتھڑی ہوئی وہ تقریر کی جس میں "جائز” کے ساتھ "ناجائز” گالیاں بھی نکالیں ۔۔۔ جی ہاں وہ ناجائز گالیاں جو اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف کو نکالیں گئیں تھیں ۔۔۔ کھلم کھلا ۔۔۔ سرعام اور اگر مگر کے بغیر!!

نیشنل ایکشن پلان کا چرچا تھا سو ہم دیکھنے لگے کہ کب قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔۔۔ رضوی صاحب نہ سہی ان کے ساتھ کا کوئی بندہ ہی شائد دھر لیا جائے ۔۔۔ مگر کچھ نہ ہوا ۔۔۔ بلکہ کہیں غالبا یہ فیصلہ ہوگیا کہ اس بندے کا پوٹینشل باقیوں سے زیادہ ہے سو اس کو آگے لاو ۔۔۔ آگے کی ساری کہانی سامنے ہی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے وہ فیض آباد آ بیٹھے!!

ہم پھر بھی تذبذب میں تھے کہ کہیں خود کو کسی سازش تھیوری کا شکار نہ کرلیں ۔۔۔ سو دل کو آگے کیا اور دماغ کو پیچھے ۔۔۔ خود کو سمجھایا کہ ختم نبوت کا ہی مسئلہ ہے ۔۔۔ مگر پھر ایک نیا ہی رنگ دیکھا کہ صبح شام "عقیدے اور منہج” کا دم بھرنے والے جتھے بھی رضوی صاحب کی جے ہو کے نعرے لگانے لگے ۔۔۔ اور کسی کو جانیں یا نہ جانیں ان کو تو ہم جانتے ہیں کہ یہ ہمارے اپنے ہیں ۔۔۔ معلوم ہے کہ کونسی بیٹری کہاں سے چارج ہوتی ہے ۔۔۔ شک یقین میں بدل گیا کہ کھیل کچھ اور ہے۔۔۔ عسکری پیٹرولیم استعمال کرنے والی ساری "گاڑیاں” ہم نے رضوی صاحب کے در پر پارک ہوئی دیکھیں ۔۔۔ریاستی و قومی مفاد کے سرچشمہ صافی سے سیراب ہونے والے بریلوی’ دیوبندی’ اھل حدیث’ جماعت اسلامی’ تاجران’ صحافی۔۔۔۔ سب ہی عاشقان کی صف میں شامل ہوگئے!!

جو رہ گئے وہ خاموش ہوگئے کہ الیکشن کا سال ہے ۔۔۔ نافرمانی کی سزا پانچ سالوں کے دوران بھگتنا پڑتی ہے ۔۔۔ پیچھے رہ گئی حکومت تو وہ لڑ لڑ کر چونچ پہلے ہی گنوا چکی ہے اور اب کی باری دم جائے گی!!

سو ہم سب دیکھتے ہیں ۔۔۔سنتے ہیں۔۔۔ کچھ کچھ سمجھتے بھی ہیں مگر کیا بولیں اور کیا لکھیں کہ
ہم بھی تو انسان ہیں ناں گوشت پوست کے بنے ہوئے ۔۔۔ مجبوریوں اور مصلحتوں کے مارے ہوئے ۔۔۔ کبھی سیدھے اور کبھی ٹیڑھے ۔۔۔ کبھی صاف گو اور کبھی دوغلے ۔۔۔ کبھی من میں وہ سمایا جو دل نے کہا اور کبھی من دماغ و عقل کا ہمنوا ہوگیا!!!

(عزیزالرحمن)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے