آزادی پسندوں کاامن مارچ،نعیم بٹ اوروزیراعظم آزادکشمیر

آزادکشمیر میں 16 مارچ کو کنٹرول لائن پر ہونے والی دوطرفہ گولہ باری اور فائرنگ سے متاثر ہونے والے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے امن مارچ کے نام سے تتہ پانی سے ککوٹہ پل ایک ریلی نکالی گئی۔ امن مارچ کے شرکا کنٹرول لائن کے دونوں اطراف افواج کی طرف سے گولہ باری بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایل او سی کی عوام کو بنیادی سہولیات دینے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ اس ریلی میں ہزاروں لوگ شامل تھے۔ مارچ کی کال آزادی پسند تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (JKLF)نے دی تھی، جس میں دیگر پارٹیاں بھی شامل ہوئیں۔ اس امن مارچ میں شامل صحافی نعیم چغتائی نے بتایا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں آزادکشمیر میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نہیں دیکھے گئے۔ مارچ کے شرکاء کی منزل دھر بازار جو لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے، تھی ، عینی شاہد کے مطابق اس مارچ کے شرکاء جہاں جہاں سے گزرتے تھے ، مقامی آبادی ان پر پْھول برساتی تھی اور ان کے لیے کھانے اور پانی وغیرہ کا رضاکارانہ بنیادوں پر انتظام کر رہی تھی۔

جب یہ مارچ اپنی منزل پر پہنچا تو وہاں کچھ شرکائے مارچ کی آزادکشمیر انتظامیہ کے ساتھ تلخی ہوئی ، جس کا نتیجہ تصادم نے صورت میں سامنے آیا۔ پولیس کی جانب سے فائرنگ اور شیلنگ کی گئی اور پھر دونوں جانب سے پتھراؤ بھی ہوا۔ مارچ کے کئی شرکاء کے علاوہ پولیس کے کچھ اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ رد عمل میں ککوٹہ پل کے ساتھ بنا ہوا ایک کمرہ جس میں عموماً پل کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکار بیٹھتے ہیں، بھی مظاہرین کی جانب سے نذر آتش کیا گیا۔ اب تک کی معلومات کے مطابق گولیاں پولیس کی جانب سے برسائی گئیں اوراس وقت موقع پر ڈی سی بھی موجود تھا۔ پولیس کی فائرنگ سے ایک نوجوان نعیم بٹ شدید زخمی ہو گیا تھا جسے بعد ازاں پمز ہسپتال راولپنڈی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ آج نعیم بٹ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ بتایا جاتا ہے کہ راولاکوٹ کا رہائشی نعیم بٹ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے ساتھ وابستہ تھا۔

اس مارچ کی خبر پاکستانی ٹی وی چینلز نے نہیں کی ، اس کی وجہ واضح ہے کہ وہ ’’سیکیورٹی وجوہات ‘‘کی بنا پر ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ مارچ کے شرکاء لائن آف کنٹرول پر ہونے والی دو طرفہ (پاک بھارت) فائرنک کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے اور ’’قومی سلامتی کے تقاضے‘‘کے تحت ایسی خبریں نشر نہیں کی گئیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر دھرنے کے شرکاء مسلسل ویڈیوز ڈالتے رہے۔ میں نے دیکھا کہ ان ویڈیو کو پوری دنیا میں بیٹھے کشمیریوں نے آن لائن دیکھااور چند ہی گھنٹوں میں ان ویڈیوز کے ناظرین ہزاروں سے تجاور کر گئے۔ اگلے دن یعنی 17مارچ کے پاکستانی قومی اخبارات میں اس مارچ کا کوئی ذکر نہ تھا البتہ آزادکشمیر کے اخبارات جموں کشمیر، کشمیر ٹائمز ، صدائے چنار ، سیاست ، جموں کشمیر ٹائمز ، آن لائن اخبار اسٹیٹ ویوز پر یہ خبر موجود تھی ، انٹرنیشنل میڈیامیں وائس آف امریکا (وی او اے)پر صحافی روشن مغل کی نیوزاسٹوری اور یورپین پریس فوٹو ایجنسی (ای پی اے)پر صحافی اور فوٹو گرافر امیر الدین مغل کی بنائی ہوئی چار تصاویر شائع ہوئیں۔اندرون اور بیرون ملک مقیم کشمیریوں نے اس مارچ کو بھرپور انداز میں سراہا۔جو لوگ 90کی دہائی میں اس نوع کے احتجاجوں میں شرکت کر چکے تھے ، ان کا کہنا تھا کہ’’ ہم آج ایک بار پھر جوان ہو گئے ہیں‘‘

اس وقت جب کہ یہ سطور لکھی جارہی ہیں ، آزادکشمیر کے ضلع راولاکوٹ میں واقع شیخ زید ہسپتال (سی ایم ایچ) میں نعیم بٹ کا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے۔ راولاکوٹ شہر میں شدید احتجاج جاری ہے۔ سی ایم ایچ کیس امنے ہزاروں لوگ موجود ہیں ،لائیو ویڈیو دیکھ کر لگتا کہ لوگ مشتعل ہیں اور شدید نعرے بازی کر رہے ہیں ۔ لوگ نعیم بٹ کی قاتل کی نشاندہی اور سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ امن مارچ پر فائرنگ کا حکم دینے والے انتظامی افسران کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔ واقعے کی ایف آئی آر درج کی جائے اور جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔ یہی مطالبہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک نے بھی کیا ہے۔ یاسین ملک نے آن لائن نیوز پورٹل’’ اسٹیٹ ویوز‘‘ کے ساتھ اپنی ٹیلی فونک گفتگو میں اس واقعے کو قابل مذمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ آزادکشمیر حکومت اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرائے اور اس وقت تک متعلقہ افسران کو معطل رکھے۔‘‘ پوسٹ مارٹم کی جو بھی رپورٹ جو بھی آئے ،قانونی معاملات اسی کے مطابق آگے بڑھیں گے لیکن عینی شاہدین کے بقول نعیم بٹ پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہوئے ہیں ، ان کے زخمی ہونے کے فوراً بعد کی ویڈیوز بھی موجود ہیں۔ اس لیے پولیس اور انتظامیہ کو یکسر بے قصور قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس وقت آزادکشمیر حکومت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر کو آزادکشمیر اسمبلی کے متوازی قائم نسبتاً زیادہ بااختیار’’ آزادجموں کشمیر کونسل‘‘ کے خاتمے اور بے اختیار آزادحکومت کو بااختیار بنانے کے اعلان کے بعد سے اندرونی اور بیرونی طور پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ بہت سے طاقتور حلقے بھی اس سلسلے میں ان کے مخالف ہیں ، یہی وجہ ہے کہ طاقتور حلقے اس وقت ان سیاسی چہروں کو فاروق حیدر کے خلاف استعمال کر رہے ہیں جو دراصل انہی کے مہرے ہیں۔ فاروق حیدر کا المیہ یہ ہے کہ وہ خود بھی پہلے تولنے اور پھر بولنے کے قائل نہیں۔ جو منہ میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں۔ کئی بار تو ان کی گفتگو ان کے موقر عہدے سے فرو تر محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے چند دن قبل آزادکشمیر کے علاقے نکیال میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران 16 مارچ2018 ء کے امن مارچ کے شرکاء کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے، جس کے بعد لبریشن فرنٹ اور دیگر آزادی پسند ان کے خلاف سراپا احتجاج تھے ، ابھی وہ احتجاج ختم نہیں ہوا تھا کہ اب مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ کا نشانہ بننے والے نعیم بٹ بھی جان سے گزر گئے۔آزادکشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر کو چاہیے کہ وہ حالات کی نزاکت کا ادارک کریں اور اس مسئلے کو دانشمندی سے حل تلاش کریں۔ انہیں ’’جڑ سے اکھاڑ دوں گا ‘‘،’’ بھگا دوں گا‘‘ ٹائپ فلمی ڈائیلاگ بولنے کی بجائے متانت اور سنجیدگی سے کنٹرول لائن کے متاثرین کی بات سننی چاہیے اور نعیم بٹ کی سیاسی جماعت اور لواحقین کے ساتھ دْکھ کی اس گھڑی میں ہمدردی کا عملی اظہار کرنا چاہیے ۔ شفاف تحقیقات اور بے لاگ انصاف ہی سب سے بڑی ہمدردی ہے۔

پس نوشت: 22 مارچ کو پورا دن احتجاج جاری رہا تاہم شام کو اطلاع ملی ہے کہ وزیراعظم آزادکشمیر فاروق حیدر نے اس واقعے کانوٹس لے لیا ہے ۔ اور جوڈیشل انکوائری کرانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ، نوٹیفیکیشن کے مطابق جسٹس ہائی کورٹ شیراز کیانی یہ انکوائری 30 دن میں کریں گے۔ دیر آید درست آید۔ امید ہے کہ شفاف تحقیقات کی جائیں گی اور معلوم کیا جائے گا کہ نعیم بٹ کی موت کا اصل سبب کیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے