چہرہ سرمئی، بال سفید؛ کینسر کا مریض اپنا نگیٹیو خود بن گیا

وارسا: پولینڈ کے 32 سالہ ایڈم کرلائکیل اپنے عجیب و غریب چہرے کی وجہ سے انسٹاگرام اور فیس بُک پر مشہور ہوگئے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنا چہرہ رنگ کر گہرا سرمئی اور بالوں کو سفید کرلیا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی تصویر کے نگیٹیو کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

ایڈم کا کہنا ہے کہ وہ اب تک اپنے 90 فیصد جسم پر ٹیٹو بنوا چکے ہیں تاہم ان کا مقصد اس شرح کو 99 فیصد تک پہنچانا ہے۔ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیونکہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں، وہ صرف اپنی خوشی کےلیے کررہے ہیں تاکہ جب وہ مریں تو اپنی ساری خواہشیں پوری کرچکے ہوں۔

2008 میں 22 سالہ ایڈم کو آنتوں کا کینسر ہوگیا تھا جس کے علاج کےلیے انہیں متعدد بار کیموتھراپی اور ریڈیوتھراپی وغیرہ جیسے معالجوں سے گزرنا پڑا۔ اگرچہ وہ صحت یاب ہوگئے لیکن سائیڈ ایفیکٹ کے نتیجے میں ان کی جلد بے رنگ ہوگئی اور وہ ساری زندگی کےلیے ’’البینزم‘‘ نامی کیفیت کا شکار ہوگئے۔

ان کی ہیئت کذائی کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے ان سے ملنا جلنا کم کردیا اور دوست بھی ساتھ چھوڑنے لگے۔ تب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی خوشی کی خاطر خود ہی کچھ کریں گے۔ جسم پر ٹیٹو بنوانا انہیں پہلے ہی سے پسند تھا اور وہ اپنے بازوؤں اور گردن وغیرہ پر مختلف ٹیٹو بنواتے رہتے ہیں۔

جب وہ اپنے ارد گرد لوگوں کی وجہ سے شدید اُداس ہو کر ڈپریشن میں چلے گئے تو آخرکار انہوں نے اپنے پورے جسم کو ٹیٹوز سے بھرنے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانا شروع کردیا۔

چونکہ سرمئی رنگ ان کا پسندیدہ ہے اس لیے انہوں نے اپنے چہرے کو گہرا سرمئی رنگ جبکہ بالوں کو سفید رنگ دے دیا۔ اس طرح وہ دیکھنے پر اپنی ہی تصویر کا نگیٹیو نظر آنے لگے۔ پھر انہوں نے فیس بک اور انسٹاگرام پر اکاؤنٹس بنائے اور روزانہ کے حساب سے اپنی تصویریں اپ لوڈ کرنا شروع کردیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ ان کے مداح بن گئے اور انہیں مختلف پروگراموں اور نمائشوں کےلیے بلوایا جانے لگا۔ اپنے عجیب و غریب حلیے اور رنگت کے باوجود، ایڈم خوش ہیں کہ انہیں دنیا بھر سے پذیرائی مل رہی ہے۔ انہیں اطمینان ہے کہ انہوں نے صرف کینسر جیسی موزی بیماری کو شکست ہی نہیں دی بلکہ اپنے لیے سماجی ناپسندیدگی کا بھرپور ازالہ بھی کردیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے