نواز شریف احتساب عدالت میں کیا کرتے رہتےہیں ؟

نواز شریف احتساب عدالت میں سماعت شروع ہونے سے قبل ہی آکر پہلی صف میں اپنی مخصوص نشست پربراجمان ہوجاتے ہیں۔ اکثر سینیٹر پرویزرشید ان کے بائیں جبکہ مریم نواز ان کے دائیں طرف بیٹھ جاتی ہیں۔ رپورٹرز ان کے سامنے کھڑے بلا توقف سوالات پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ نواز شریف ہنس بھی رہے ہوتے ہیں، غصے میں بھی دکھائی دیتے ہیں اور کبھی عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے کر پریشان بھی ہوجاتے ہیں۔ موقع تلاش کرتے ہی خود بھی کئی سوالات کا جواب سوالات ہی کی صورت میں دیتے ہیں۔ غیر رسمی بات چیت میں وہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ آئے ہوئے پارٹی رہنما خاموشی سے باادب کمرہ عدالت میں موجود رہتے ہیں، جن سے وقتا فوقتا مشاورت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ دوران سماعت نواز شریف اور مریم نواز اپنے موبائل فونز پر بھی مصروف نظر آتے ہیں۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ آئندہ اس احتساب کے عمل سے نکلنا مشکل ہوگا، مشرف غداری کیس میں ضابطوں اور اصول پر عملدرآمد پہلے کبھی ہوا ہی نہیں، 2013 میں احتساب کا عمل شروع ہوا ، یہ عمل ایک بندے تک محدود نہیں رہے گا جو بھی اس طرح کے جرم کا مرتکب ہوا ہے وہ بھی نہیں بچ سکے گا، اس ملک میں احتساب صرف سیاستدانوں اور سول سرونٹس کا ہی ہوتا ہے۔ عمران خان کے 2013کے الیکشن کے حوالے سے بیان کا نوٹس لیا جانا چاہیے۔ جن جن کو نوٹس لینا چاہیے ، ثاقب نثارصاحب از خود نوٹس لے لیتے ہیں اس پر بھی لیں۔ اصغر خان کیس میں بھی سب کے نشانے پر نواز شریف ہی ہے۔

نواز شریف نے کہا نیب کاقانون ایک ڈکٹیٹر پرویز مشرف کا بنایا ہوا ہے یہ ٹیلر میڈ ہے جیسے ایک درزی ماپ کرکے قمیض بناتا ہے اس کا قیام بھی مکروہ عزائم کے ساتھ ہوا۔ اس ملک میں ڈکٹیٹر کا قانون چلے یا منتخب پارلیمنٹ کا قانون چلے۔ وزیراعظم سے نیب قانون معطل کرنے سے متعلق بات ہوئی ہے۔میں بھی تھوڑا تذبذب کا شکار ہوں کہیں ایسا نہ سمجھا جائے کہ یہ میری ذات سے متعلق ہے۔اس کیس کا فیصلہ ہونے دیں پھر اس معاملے پر بات ہوگی۔ ملک جس سمت جا رہا ہے دعا کریں کسی حادثے سے بچ جائیں۔

جب سوال کیا کہ نیب قانون کو جمہوری دور میں ختم کیوں نہیں کیا گیا تو بولے بد نصیبی ہے کہ نیب کے حوالے سے اتفاق رائے نہیں ہوسکالیکن پھر بھی یہ ڈکٹیٹر کا ہی قانون ہے۔ "ہم ترقیاتی کاموں میں ذیادہ مصروف رہے ہیں نیب قانون کی طرف توجہ نہیں دے سکے۔ ہمارے خلاف ریفرنسز میں توسیع اس وقت تک لی جاتی رہے گی جب تک نیب اور پراسیکیوشن میرے خلاف کچھ جعل سازی نہ کرلیں۔” دائیں طرف نشست پر براجمان مریم نواز نے نیب چیئرمین کی طرف سے بھارت منی لانڈرنگ سے متعلق پریس ریلیز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا "ایک کوشش ہوئی تو ہے۔”

نواز شریف چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال سے متعلق بات کرنے میں بہت محتاط تھے۔ اب صورتحال مختلف ہے۔ احتساب عدالت میں صحافیوں سے مشورہ مانگا کہ مجھے چیئرمین نیب کے خلاف کیا ایکشن لینا چاہیے؟ "عجیب تماشا بنادیا گیا ہے ملک کو۔” آٹھ ماہ ہوگئے ہیں کوئی فیصلہ نہیں آرہا۔ نیب کو ہمارے خلاف ثبوت نہیں مل رہے۔ کم از کم ہمیں بتادیں ہم ہی کچھ ڈھونڈ کر لے آئیں۔ کیس میں کچھ ہوتا تو 8ہفتوں میں فیصلہ آجاتا۔ کسی اور کا فیصلہ نہیں فیصلہ وہی ہوگا جو قوم کریگی،22کروڑ عوام کا فیصلہ ہوتا ہے چند لوگوں کا نہیں ہوتا، عدالت کے 5لوگوں نے جو فیصلہ سنایاہے وہ لوگوں نے رد کردیاہے، الیکشن میں فیصلہ آجائیگا، اس سے قبل ضمنی الیکشن میں بھی فیصلہ آیاہے، آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا۔

نواز شریف سے پوچھا گیا کہ خلائی مخلوق کی ہیت کیسی ہے؟ مریم نواز نے تصدیق کی کہ نواز شریف خود بھی سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اور وہاں ہونے والی بحث کا بغور جائزہ بھی لیتے ہیں۔ نوا زشریف نے اپنا موبائل فون آگے بڑھاتے ہوئے واٹس ایپ میسیج دکھایا جس میں سوشل میڈیا پر کسی نے نواز شریف کے خلاف لگنے والے الزامات کے تناظر میں مطالبہ کیا کہ جو ٹائٹینک ڈوبا تھا اس سے متعلق بھی نواز شریف سے پوچھا جائے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ خلائی مخلوق کی شکل صورت اور ہیت پر بحث جاری رہنی چاہیے عوام خود اندازہ لگائیں گے کہ خلائی مخلوق سے مراد کیا ہے۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ شہباز شریف ایک وفادار اور خدمت گزار بھائی ہیں۔ ان کا رستہ مجھ سے مختلف نہیں ہے۔ ڈیل والی باتیں پرانی ہوگئی ہیں۔ چوہدری نثار سے متعلق اب بھی نواز شریف نےخاموشی اختیار کررکھی ہے۔ شہباز شریف سے متعلق کبھی بھی کوئی سخت الفاظ ادا نہیں کیے۔

نواز شریف نے کہا کہ ثاقب نثار قانون توڑ کر فیصلے کرتے ہیں، بہت دکھ ہوتاہے۔ ایک سوال پر کہا مجھ سے روز سوالات کرتے ہیں کچھ سوالات ثاقب نثار سے بھی کریں۔ پھر کہا وہ ہسپتال جاکر برتن پھینک دیتے ہیں۔ پھر خود سوال اٹھایا کہ کیا وہ اس منصب کے رہنے کے اہل ہیں۔ نواز شریف چیف جسٹس کو ان کے عہدے سے نہیں بلکہ ثاقب نثار کہتے ہیں . ان کی انتظامیہ کی نااہلی پر توجہ دلانے اور ازخود نوٹس لینے کو مداخلت قراردیتے ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ "قانون اور آئین سے بالاتر فیصلے ہورہے ہیں۔”

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کا ایک معیار نہیں ہے۔ جہاں ایک بات زیب دیتی وہ کرتے ہیں جبکہ دوسری جگہ موقف کچھ اور ہوتا ہے۔ مریم نواز نے کہا عمران خان کو جو بتایا جاتا ہے وہی کرتاہے۔ نواز شریف نےکہا عمران خان پر کبھی اعتبار نہیں کیا ۔

نواز شریف کہتے ہیں کہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ نظام کو درست کرنا ہے۔ ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار اور سپریم جوڈیشل کونسل کے طریقہ کار کو بدلنا ہوگا، پارلیمنٹ کا کردار موثر کرنا ہوگا۔ کہتے ہیں یہ ایک بہت سنجیدہ مسئلہ ہے اس پر غور وحوض کرنے کی ضرورت ہے۔ معاملے کی سنجیدگی کا ذکر کرتے ہوئے اس سے متعلق زیادہ تفصیل سے بات نہیں کرتے کہ آخر نظام کیسا ہونا چاہیے؟

دنیا ٹی وی کے رپورٹر عامر عباسی نے پوچھا آپ تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں اب کون سا نظام لے کر آنا باقی ہے؟ نواز شریف نے جواب دیا نیا نظام ضرور آئیگا، انشاء اللہ ضرور آئیگا۔ تین دفعہ وزارت عظمیٰ ملی اور چھین لی گئی۔ ملک میں معاشی اور معاشرتی ناہمواریاں ہیں۔

نوازشریف اس بات پر بہت خوش ہیں کہ ان کی جماعت کو نہیں توڑا جا سکا اور اس طرح کی تمام تر کوششیں ناکامی پر منتج ہوئی ہیں۔ "بڑی کوشش کے باوجود پارٹی کے لوگ نہیں ٹوٹ رہے۔” پارٹی توڑنے کی کوشش کامیاب نہیں ہوری عقل کرو، وقت بدل گیاہے۔ ایک پارٹی رہنما کو ڈرایا اور دھمکایا گیا کہ نیب کیسز بنادیں گے۔

میرے اس سوال پر کہ کیا آپ کو بھی کوئی پیغام آیا ہے؟ نواز شریف خاموش ہوگئے تو پرویز رشید جلدی سے بولے دوتہائی اکثریت لینے والے وزیر اعظم کے لیے یہ ایک پیغام ہے جس طرح یہ سب کیا گیا ہے۔ پھر نوازشریف نے کہا یہ مقدمہ میرے لیے ایک پیغام ہے، روز میرے حوالے سے خبر آتی ہے کہ اڈیالہ جیل کی صفائیاں ہورہی ہیں، اڈیالہ جیل سے متعلق مضامین اور خبریں بھی پڑھتا رہتا ہوں۔ "تحریک انصاف میں ضم ہونے والے کون ہیں؟ ان کی شکلیں دیکھیں ، میں تو انہیں نہیں پہچانتا۔ کہتے ہیں کہ خسرو بختیار نے ان سے کبھی جنوبی پنجاب سے متعلق بات تک نہیں کی ۔

نواز شریف نے کہا انہوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا ، دہشتگردی کا خاتمہ کیا، امن لیکر آئے اور سی پیک جیسے منصوبوں کی داغ بیل ڈالی۔ جب پوچھا گیا کہ کیا یہ سب اداروں کی مشترکہ کاوش نہیں تھی؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو تو میں ہی تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی تو فوج کا سربراہ تھا پھر بڑے فیصلے کیوں نہیں کیے گئے؟ جب توجہ دلائی کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف 2009 کا سوات آپریشن کا فیصلہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا تھا اس پر ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ آپریشن نہ کیا جاتا تو بڑاظلم ہوتا۔

سماء ٹی وی کے رپورٹر فیاض محمود کے سوال پر بولےکہ ضرب عضب کا اعلان پارلیمنٹ میں، میں نے خود کیا تھا، چودھری نثار کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اسی لیے مجھے ہی اعلان کرنا پڑا تھا۔

نواز شریف اکثر یہ کہتے ہیں کہ ان کے موقف کو زیادہ جگہ نہیں مل سکی۔ یہ بھی پوچھتے ہیں جو وہ کہہ رہے ہیں کیا چل بھی سکے گا؟ جی سب لکھ کر بھیج دیا جاتا ہے ،اب اداروں کی مرضی جو وہ کریں۔ کہتے ہیں اگر رپورٹنگ بھی نہ ہوسکے تو پھر آپ لوگ بھی میرے ساتھ شامل ہوجائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے