دنیا کے ’تنہا ترین انسان‘ کی ویڈیو سامنے آ گئی

1992 میں کسانوں نے حملہ کر کے اس شخص کے قبیلے کے چھ افراد کو مار ڈالا تھا جس کے بعد سے یہ دنیا میں اکیلا رہ گیا ہے۔

اب تک اس شخص سے کسی جدید انسان کا رابطہ نہیں ہوا۔ نہ اس کے قبیلے کے نام کا کسی کو پتہ ہے اور نہ ہی یہ معلوم ہے کہ وہ لوگ کون سی زبان بولتے تھے۔

یہ شخص، جسے میڈیا میں ’دنیا کا تنہا ترین انسان‘ کہا جاتا ہے، خود بھی جدید انسانوں سے رابطہ نہیں رکھنا چاہتا اور اگر کوئی اس کے علاقے میں جائے تو اس پر تیر برساتا ہے۔

اس کی عمر 50 برس کے قریب ہے اور اس کی ویڈیو برازیل کے سرکاری ادارے فونائی نے بنائی ہے۔ یہ ادارہ مقامی قبائلیوں کے حقوق کے لیے کام کرتا ہے۔

اس ویڈیو میں اس شخص کو شمالی مغربی ریاست روندونیا میں واقع ایمازون کے جنگل میں کلھاڑی کی مدد سے درخت کاٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔

فونائی کا کہنا ہے کہ ویڈیو نشر کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ یہ شخص زندہ ہے اس لیے اس علاقے میں کسی کو نہ جانے دیا جائے۔

برازیلی قانون کے تحت مقامی قبائلیوں کو اپنے علاقے پر مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ تاہم اس شخص کے علاقے کے اردگرد طاقتور کسانوں کے علاقے ہیں جو اس علاقے پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں۔ ماضی میں ان کسانوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس علاقے میں کوئی قبائلی نہیں رہتا۔

ادارہ فونائی خود بھی ایسے لوگوں سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کرتا کیوں کہ ان میں جدید انسان کے جراثیم کے خلاف مدافعت نہیں ہوتی اور یہ بڑی آسانی سے زکام جیسے معمولی مرض کا شکار ہو کر مر سکتے ہیں۔

ماضی میں اس شخص کی بنائی ہوئی کچھ جھونپڑیاں اور تیر وغیرہ ملے تھے، اس کے علاوہ اس کی ایک دھندلی تصویر بھی لی گئی تھی، تاہم ویڈیو پہلی بار سامنے آئی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ انھیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ اس شخص کی صحت عمدہ دکھائی دے رہی ہے۔

اس شخص نے 2005 میں جھونپڑی بنائی تھی تاہم بعد میں اسے ترک کر دیا تھا.

اس شخص کے قبیلے والوں کی بڑی تعداد اس وقت ختم ہو گئی تھی جب 1970 اور 80 کی دہائیوں میں ان کے علاقے میں سے سڑک گزاری گئی تھی۔ اس کے علاوہ غیر قانونی طور پر لکڑی کاٹنے والے اور کسان بھی مقامی قبائلیوں کو مار ڈالتے ہیں تاکہ ان کی طرف سے مداخلت نہ ہو سکے۔

سروائیول انٹرنیشنل نامی ادارے کی فیونا واٹسن کہتی ہیں: ‘یہ شخص بڑے ہی پرتشدد تجربے سے گزرا ہے اور اسے دنیا نہایت خطرناک جگہ دکھائی دیتی ہو گی۔’

انھوں نے کہا: ‘ہم اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جاننا چاہتے، تاہم وہ اس بات کی علامت ہے کہ ہم انسان کے زبردست تنوع سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے