آرٹیکل35A نہیں تو کشمیرنہیں !

ریاست جموں کشمیر میں اس وقت آئین کی دفعہ 35A زیر بحث ہے اور ہندوستان کی عدالت عظمی میں اس سے متعلق دائر درخواستوں پر 6 اگست کو سماعت ہونی ہے ۔ اس سماعت کو بنیاد بنا کر ریاست کے تمام حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ کہیں ریاست کی متنازع حیثیت اور خصوصی شناخت کو ختم ہی نہ کر دیا جائے۔ اس بنیاد پر جہاں حریت کانفرنس پریشان ہے وہیں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور نیشنل کانفرنس سمیت وکلا ، سول سوسائٹی ، تاجران اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بھی احتجاج کی اپیل کرتے نظر آرہے ہیں اور وہ چھ اگست کو ہڑتال کی کال دیے ہوئے ہیں جبکہ ریاست کے دوسرے حصوں آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان اور لداخ میں اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے۔

دوسری جانب ریاست کے گورنر این این ووہرا نے کہا ہے کہ ریاست میں عوامی حکومت نہیں ہے ، اس لیے سپریم کورٹ کو چاہئیے کہ وہ سماعت کو موخر کرنے میں اپنا رول ادا کرے اور ایڈووکیٹ جنرل سمیت سرکردہ وکلا سپریم کورٹ میں اس دفعہ کا دفاع کریں۔جموں کشمیر میں 35A کے موضوع پر پائی جانے والی بے چینی پر سری نگر کا ہفت روزہ رہبر اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ:

”چھ اگست کو کیا ہوگا یہ تو معلوم نہیں لیکن جس طرح ہوا کھڑی کی گئی ہے ، اس سے ان خدشات کو تقویت پہنچ رہی ہے کہ شاید گورنر انتظامیہ اس کیس کا دفاع نہیں کرے گی اور یوں یہ دفعہ ختم ہو جائے گی”۔ مضمون میں مزید لکھا گیا ہے کہ: ” دلچسپ امر یہ ہے کہ بھاجپا نے گزشتہ برس یہ اعلان کیا تھا کہ جب تک پی ڈی پی کے ساتھ اقتدار کی شراکت ہے تب تک دفعہ35A کی بات نہیں کی جائے گی ۔ یہ ایک ذو معنی بات تھی ۔ یعنی اگر کسی وجہ سے پی ڈی پی سے ناطہ ٹوٹ جائے یا بی جے پی کو نئے اتحادی مل جائیں یا پھرگورنر راج آجائے تو دفعہ 35A ختم کرنا پارٹی کا اصولی موقف ہے۔ اس وقت پی ڈی پی سے ناطہ ختم ہو چکا ہے اور گورنر راج بھی قائم ہے تو کیا یہ مطلب لیا جائے کہ اب آئینی یلغار کیلئے راہ ہموار ہو چکی ہے؟”۔

[pullquote]دفعہ 35A کیا ہے؟[/pullquote]

ہندوستان کے آئین کی دفعہ 370کے تحت ریاست جموں کشمیر کو آئین ہند میں خصوصی حیثیت حاصل ہے ، اس کے مطابق ریاست کا دفاع، امور خارجہ اور بیرون ملک سفر ہندوستان کے ذمہ ہے ۔ اس کے علاوہ ہندوستان ریاست جموں کشمیر کے کسی آئینی معاملے کو چیلنج کرنے یا ریاست کے حوالے سے قانون سازی کا مجاز نہیں ہے۔ مذکورہ تین امور کے علاوہ آئین ہندوستان کے مطابق تمام دیگر امور دفعہ370کے تحت ہیں۔ اسی طرح دفعہ 35Aکے مطابق ریاست جموں کشمیر میں صرف ریاستی باشندے مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں ، غیر ریاستی باشندے جموں کشمیر میں نہ تو جائیداد بنا سکتے ہیں ، نہ وہاں ووٹ دے سکتے ہیں اور نہ ہی روزگارحاصل کر سکتے ہیں۔ ووٹ ڈالنے، ریاست کے اندر روزگار حاصل کرنے اور مستقل سکونت کا حق صرف ریاست کے باشندوں کا ہے۔

دفعہ 35A اصل میں مہاراجہ کے قانون کی توثیق تھی جو ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927میں کئی عوامل کی وجہ سے لاگوکیا تھا۔ جن میں ایک وجہ کشمیری پنڈتوں کا اس بات پر احتجاج تھا کہ سرکاری نوکریوں میں پنجابی اور دیگر غیر ریاستی باشندوں کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے جس سے پنڈتوں کی نمائندگی پر اثر پڑ رہا ہے۔ کشمیری مسلمان عموما ان پڑھ اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام ہی تھے، اس لئے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مشرقی پنجاب کے زمیندار، کشمیری لڑکیوں سے شادیاں کرکے زمینوں کے مالکانہ حقوق مانگتے تھے اور تیسری اہم وجہ مہاراجہ کا یہ خوف تھا کہ کہیں برطانوی افسران کشمیر میں مستقل رہائش اختیار نہ کر لیں، کیونکہ کشمیر اور انگلینڈ کا موسم خاصی حد تک مماثلت رکھتا تھا۔یہ مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین میں حصوصی حیثیت اور آئین کی دفعہ 35Aسے متعلق ہلکا سا تعارف ہے جس سے اصل صورت حال سمجھنے میں آسانی رہے گئی۔

[pullquote]دفعہ 35A کے خلاف سازش کب کی گئی اور کیا موقف اپنایا گیا؟[/pullquote]

ہندو ستان میں بھاجپا حکومت (مودی سرکار) کے قیام کے دو ماہ بعد19اگست 2014کوہندو فرقہ پرست جماعت آر ایس ایس کے کشمیر کے حوالے سے بنائے گئے تھنک ٹینک جموں کشمیر اسٹڈی سنٹر دہلی نے ایک غیر سرکاری تنظیم "We the People” کو استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کی سپریم کورٹ میں ریاست جموں کشمیر کی آئینی حیثیت اور شناخت (اسٹیٹ اسبجیکٹ رول) کو چیلنج کرنے کی لئے درخواست دائر کی تھی جس میں تنظیم کی طرف سے موقف اپنایا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 35Aکی وجہ سے ہندوستان کے عوام کے حقوق غصب ہوتے ہیں ۔عوام میں غیر مساوی سلوک کیا گیا ، درخواست جمع کروانے والے جموں کشمیر اسٹڈی سنٹردہلی نے درخواست میں دعوی کیا ہے کہ ہندوستانی پارلیمنٹ کو اطلاع کے بغیر ہی کشمیر کے متعلق تیار کیے گئے مسودے پر اس وقت کے صدر ہندنے دستخط کر کے غلطی کی ہے ،اس لئے جموں کشمیر اسٹڈی سنٹر کی سفارش پر اس قانون 35A کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اس پر سپریم کورٹ نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کو نوٹسز بھی جاری کئے تھے ، جس پر ریاستی حکومت نے دفاع بھی کیا اور قانونی دلائل بھی دیے جبکہ دہلی نے نوٹس پر تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔

اس پر ہفت روزہ رہبر لکھتا ہے کہ:” مرکزی حکومت کے جواب نہ جمع کروانے سے محسوس ہوتا ہے کہ دہلی اس کیس میں پارٹی نہیں بننا چاہتی اور عدالت کو آزادی دی گئی کہ وہ یک طرفہ فیصلہ سنائے”۔ گزشتہ دنوں اسی دفعہ پر ایک خاتون نے ایک اور درخواست دائر کی جس پر مقدمہ تین رکنی بنچ کے سپرد کرتے ہوئے عدالت عظمی نے چھ ہفتوں میں فیصلہ سنانے کی ہدایت کی تھی اور چھ اگست کو فیصلہ سنایا جانا متوقع ہے۔

اس کے علاوہ 2014 میں ہی ایک دوسری کوشش بھی کی گئی کہ کشمیر اسمبلی سے قانون سازی کے ذریعے اس دفعہ کو ختم کیا جائے ۔ اس کیلئے ہندوستانی زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ انتخابات (25 نومبر تا 20 دسمبر2014 تک مرحلہ وار انتخابات ہوئے) میں بی جے پی اس اعلان کے ساتھ آئی تھی کہ وہ اقتدار میں آکر کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرے گی لیکن وہ انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی اس کے باوجود پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے کشمیر میں 2015 میں حکومت بنانے کیلئے بی جے پی سے اتحاد کیا۔ یہ اتحاد اس شرط پر ہوا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت آرٹیکل370 سے نہیں چھیڑے گی تاہم بی جے پی نے دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے370کو تو نہیں چھیڑا لیکن آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بنیادی شق35Aکوکالعدم قرار دینے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ وہ اپنے سابق صدر کی غلطی کو سدھارنا چاہتے ہیں جو انہوں نے 1954 میں کی۔

[pullquote]کشمیر کی خصوصی حیثیت کب اور کس طرح آئین ہند کا حصہ بنی؟[/pullquote]

کشمیر کا آئین(خصوصی حیثیت)14 مئی 1954کو ہندوستان کے صدر کے آئین ہند پر دستخط سے بنا تھا۔1951کو بننے والی پہلی مقبوضہ کشمیر اسمبلی نے ہندوستان کے آئین کا کشمیر سے متعلق حصہ مرتب کیا تھا۔افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ” کشمیر کاآئین بھی ایک ایسی اسمبلی نے تیار کیا تھا جس کی حقیقت اور حیثیت کی قلعی خود اس وقت کے انٹیلی جنس سربراہ بی این ملک نے کھول دی۔ ان کے بقول ‘‘ان امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا جو حزب مخالف کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے تھے”۔ اس حقیقت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ الحاق کی دستاویز کی توثیق اور کشمیر کے آئین کی منظوری کو کوئی عوامی تائید حاصل نہیں تھی۔ پھر بھی جو قوانین بنے ان کو ختم کرنے کیلئے پچھلے 69 برسوں میں بھارتی حکومتوں نے آرٹیکل 370 کو اس بری طرح سے مسخ کر دیا کہ اس کا اصلی چہرہ اب نظر ہی نہیں آتا۔ کئی مواقع پر خود کشمیری لیڈروں نے اپنی عزت نفس کا خیال نہ کرتے ہوئے ان آئینی خلاف ورزیوں کے لئے راہ ہموار کی۔ افتخار گیلانی مزید لکھتے ہیں کہ” اگر ایک طرح سے کہا جائے کہ آئین کی اس شق نے کشمیریوں کو سیاسی گرداب سے بچنے کے لئے جوکپڑے فراہم کئے تھے، وہ سب اتر چکے ہیں اور اب صرف دفعہ35Aکی صورت میں ایک نیکر باقی ہے تو بے جا نہ ہو گا”۔

اب فرقہ پرست عناصر اب اسی نیکر کو اتارنے، کشمیریوں کی عزت نیلام کرنے اور ان کو اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے کے لئے ایک گھناونا کھیل کھیل رہے ہیں، جس کے لئے عدالتی نظام کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ عدالت میں یہ معاملہ لے جا کر آر ایس ایس نے جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کی خاطر اپنے مکروہ عزائم واضح کر دیے ہیں۔ جس پر کانگریسی راہنما سیف الدین سوزنے کہا تھا کہ ” سپریم کورٹ کی طرف سے اس پٹیشن کو شنوائی کے لئے منظور کرنا ہی ان کے لئے باعث حیرت ہے اور آر ایس ایس کو بھی61 سال بعد یاد آئی کہ صدر ہندوستان سے غلطی ہوئی اور اس غلطی کو سدھارا جائے۔اگر یہ آرٹیکل ختم کر دیا گیا تو اس کے نتائج دفعہ 370 کے خاتمے سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے”۔

بی جے پی آئین سازی کے وقت کے وزیر داخلہ سردار پٹیل کا نام بھی اس پروپیگنڈا کے لئے استعمال کرتی ہے کہ انہوں نے اس مسئلے پر پنڈت جواہر لعل نہرو کی مخالفت کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پٹیل نے بھی آئین کی اس دفعہ کی مکمل تائید کی تھی۔ 1948میں جموں و کشمیر پر بھارتی حکومت نے ایک وائٹ پیپر جاری کیا تھا جس میں سردار پٹیل کا یہ بیان موجود ہے: ”الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت بھارت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اسے بالکل عارضی مانتی ہے جب تک کہ اس بارے میں ریاست کے لوگوں سے ان کی رائے نہیں معلوم کی جائے گی”۔ایک بھارتی سیاستدان کے بقول جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکھرجی نے (جن کا نام آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے وقت بی جے پی اچھالتی ہے )نے اس کی مکمل حمایت کی تھی۔ کشمیر واحد ریاست تھی جس نے الحاق کے لئے اپنی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کیے تھے۔ وہ بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی بلکہ اس نے الحاق کیا تھا، اس لیے ان کے مطابق آرٹیکل 370 دونوں کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے جس کی کسی شق کو کوئی بھی فریق یکطرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔

[pullquote]اس دفعہ کو ختم کرنے کے کیا اثرات ہوں گے؟[/pullquote]

دفعہ 35A ایک آئینی معاملہ ہے اور اس کو عدالتی کارروائی سے ختم کرنے سے کشمیر کا آبادیاتی تناسب تبدیل کیا جائے گا اور کئی برے اثرات مرتب ہوں گے تاہم عدالت کے اس ممکنہ فیصلے سے ہندوستان بھی محفوظ نہ رہ سکے گا ۔ اس پر ہفت روزہ رہبر اپنے مضمون میں دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” اگر دفعہ 35A گیا تو 50 کے قریب دیگر صدارتی حکم نامے بھی جائیں گے جو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر جاری کیے گئے اور اگر یہ سب گئے تو بات 1947 کے الحاق تک پہنچ جائے گی جو دہلی کیلئے سنگین صورتحال ہو گی”۔ اس لئے یہ بھی توقع کی جا رہی ہے کہ عدالت بھی سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کرے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت اور شناخت سے نہیں چھیڑنا چاہیے ۔

تاہم اس ضمن میں موجودہ صورتحال میں کشمیر کی سیاسی قیادت بشمول حریت کانفرنس اور انتخابی سیاست کرنے والی تمام جماعتیں اس معاملے میں جو دلچسپی دکھا رہی ہیں وہ قابل ستائش ہے اور اسی اتحاد سے ریاست کی خصوصی حیثیت کو بچایا جا سکتا ہے ورنہ اس دفعہ کو کالعدم قرار دیا گیا تو پھر جموں کشمیر "ریاست "نہ رہے گی اور ہندوستان اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے مسلم اکثریت کو ختم کر کہ اپنا تسلط زیادہ مضبوطی سے قائم کر دے گا۔

 

 

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے