خالق خدا وند کریم نے اپنے بندوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے پغمبر اور اولیا کرام کو بھیجا ۔ وہ جن کا ظہور ہی تخلیق کائنات کا سبب بنا ، انہیں ﷲ تعالیٰ نے سب سے آخر میں بحثیت معلم بنا کر بھیجا ۔ حضرت محمدﷺ کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے علم کی اہمیت و افادیت کو متعارف کروایا ۔علم ہی کی بدولت حضرت آدم کو فرشتوں پہ برتری حاصل ہوئی ۔اور انسان اشرف المخلوقات کے درجے پہ فائز ہوا۔
آپ ﷺ پہ نازل ہونے والی کتاب قرآن کریم کی پہلی وحی کا پہلا لفظ ہی اقراء ( پڑھ ) تھا ۔ آپ ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ علم کی طلب ہر مر د عورت پر فرض ہے ۔علم ایک ایسی قوت ہے جو شعور، بیباکی ، بینائی،تخلیق کاری، دانش مندی،اخوت، محبت اور صبر و استحقامت کا مجموعہ ہیں ۔تعلیم کی انہی خصوصیات کے باعث کوئی بھی اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کر سکتا ۔
تعلیم نہ صرف شعور کا نام ہے بلکہ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پہ گامزن کرنے میں بھی تعلیم کا نمایاں کردار ہے ۔اسی لیے ہر حکومت نے اپنے ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی شرح میں اضافے کے لیے بھرپور کوشش اور معاونت کی۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ؛ علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے ۔اس لیے علم کو اپنے ملک میں بڑھائیں کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکتا۔
موجودہ دور میں لوگ نہ صرف تعلیم کو فرض سمجھتے ہےبلکہ اس فرض کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جس کی بدولت تعلیم یافتہ افراد کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے حیات نوع میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔لوگ تعلیم یافتہ اور دولت مند افراد کی لسٹ میں شمار ہونے کے لیے دن رات تگ ودو کر رہے ہیں۔لیکن موجودہ تعلیم کے کچھ مثبت اور کچھ منفی اثرات ہیں۔
مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اب لوگ باشعور ہو چکے ہیں کہ وہ خود کو اب صرف مٹی کا پتلا نہیں سمجھتے ۔علم کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ زمین کی تہوں میں پوشیدہ اشیاء سے لے کر سورج کی کرنوں تک کو نہ صرف پہچان گیا ہے بلکہ ان پہ گرفت بھی حاصل کر چکا ہے ۔ جہاں علم کے مثبت پہلو اپنی مثال آپ ہیں وہیں انسان اس تعلیم کی دوڑ میں بہت سی بنیادی چیزوں کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ کوتاہیاں بھی کر رہا ہے ۔جس کے نتیجے میں لوگ تعلیم یافتہ تو ہو رہے ہیں مگر تعمیر معاشرہ کی بجائے تخریب معاشرہ کا سبب بن رہے ہیں۔لوگ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔ مگر ان کا وجود علم کی مہک سے محروم ہے۔
علم کی شمع سے جہاں روشن کرنے کی بجائے اسناد،ڈگریوں اور دولت کا ڈھیر لگانے میں سر گرداں ہے۔اس میں قصور وار کوئی ایک تعلیم یافتہ فر د نہیں ۔بلکہ آج کل بچے کو تعلیم کے معنی اچھے نمبروں سے ڈگریاں حاصل کرکے بہت سی دولت حاصل کرنا سکھایا جاتا ہے۔جبکہ حصول علم اور حصول دولت کے صحیح اور غلط راستے میں فرق نہیں بتایا جاتا ۔اور اس طرح بچوں کی بنیاد رکھی جا رہی ہے جبکہ بنیاد پہ ہی سارا لائحہ عمل منحصر ہوتا ہے۔
آج کل تعلیم کارجحان اس قدر بڑھ چکا ہے کہ بچے کی ابھی گھر والوں سے اچھی طرح واقفیت ہی نہیں ہوتی کہ اسے سکول بھیج دیا جاتا ہے ۔ وہ اپنے ننھے ہاتھوں میں فیڈر لیے جب سکول کی دہلیز پار کرتا ہے تو اس کے بچپن کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے ۔اساتذہ بچے کو قلم تو تھما دیتے ہیںمگر یہ نہیں بتاتے کہ اس قلم کی اتنی عظمت ہے کہ اس کی قسم رب کریم قرآن پاک میں کھاتا ہے ۔ جو خود صحیح طرح اپنے قدموں پہ کھڑا نہیں ہو سکتا اس کے کندھوں پہ کتابوں اور کا پیوں کا بوجھ لاد دیتے ہے۔گھر آکر ماں باپ کی الفت اور بڑوں کی قربت پانے کی بجائے وہ اپنے ہوم ورک میں ہی مصروف رہتا ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ اپنوں کی چاہت اور بچپن کی حسین وادیوں کی دلکشی سے محروم رہتا ہے۔
جب بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود کی بجائے کسی پرائیویٹ اسکول کی ضابطہ پالیسی بن جاتی ہے تو بچے بھی بڑھاپے میں والدین کا سہارا بننے کی بجائے انہیں ملازموں کے حوالے کر دیتے ہیں۔وہ لکھنا پڑھنا تو سیکھ جاتے ہیں مگر وہ تعلیم کی اہمیت و افادیت سے ناواقف رہتے ہیں جومرحلہ بچے کی کردار سازی اور تربیت سازی کا ہوتا ہے ۔اس میں اسے کاپیاں سیاہ کرنے اور پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔ سکول اور گھر میں اسی بچے کو عزت اور داد ملتی ہے جو اچھی پوزیشن حاصل کرتا ہو۔عزت اور داد حاصل کرنے کے لیے طالب علم جو طریقہ اختیار کرتے ہیں۔وہ سمجھ کر پڑھنے کی بجائے رٹہ ،نقل اور رشوت جیسے طریقے اپناتا ہے ، کیونکہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ تعلیم کا مقصد اعلیٰ نمبروں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے اعلیٰ عہدے پہ فائزہو نا ہے۔اسکول ،کالج اور یونیورسٹی تعلیم کے اس سفر میں طالب علم امتحان سے قبل کچھ مہینے اور ایک روز پہلے نصاب کی چند کتابوں کو رٹہ لگانے اور نقل کرنے سے اعلی ٰ تعلیم یافتہ ہو جاتا ہےمگر مصنوعی پھول کی مانند بے ذوق رہتا ہے۔
موجودہ نظام تعلیم کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے۔کہ سکولوں اور کالجوں کے آپس میں مقابلے میں روندا اسٹوڈنٹس کو جا رہا ہے ۔اعلیٰ نمبروں اور دوسروں کو شکست دینے پہ فوکس تو کیا جاتا ہے مگر حصول تعلیم کے طریقے پہ نہیں۔جس کی وجہ سے اچھے اور برے کی پروا کیے بغیر آگے بڑھنے کی لگن ، جھوٹ ،فریب ،دھوکہ،رشوت ،اور بد عنوانی یہ سب کچھ زمانہ طالب علمی میں ہی سکھا دیے جاتے ہیں۔
بہت سے طلباء حصول علم کے لیے بیرون ملک بھی جاتے ہیں مگر علم کے نور سے نہ ان کا وجود منور ہوتا ہے اور نہ ہی وہ دوسروں کے لیے مانند شمع بنتے ہیں ۔الغرض اعلیٰ تعلیم یا فتہ افراد کی تعدداد میں اضافہ ہوا ہے مگر انسانوں کی تعداد میں قلت ہوئی ہے ۔اس کھوکھلے نظام تعلیم کی وجہ علم لوگوں کے دلوں سے نہیں بلکہ سر کے اوپر سے گزر جاتا ہے ۔ تعلیمی ادارے محبت ،اخوت ،ادب ،استقامت ،خدمت اور ایمانداری جیسی خوبیوں پہ مشتمل انسان تشکیل دینے کی بجائے کاغذ کے ٹکڑوں کا ڈھیر لگانے والی مشینیں تشکیل کر رہے ہیں۔
اساتذہ جہنیں ﷲ تعالیٰ نے روحانی والدین کا درجہ عطا کیا ہے جب وہ اپنا فرض ایمان داری سے نہیں سر انجام دے رہے تو طالب علموں میں سے کس طرح مولانا شبلی نعمانی اور سر سید احمد خا ں کا عکس نظر آئے ۔لیکن انسان علم اور دانائی کی بنا پہ ہی اشرف المخلوقات ہے مگر بچپن سے جوانی تک تعلیمی کرئیر میں شاندار کامیابی کے ساتھ ڈگری حاصل کرنے کے لیے اپنا سکوں غارت کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کی دیگر کاموں اور فرائض کو نظر انداز کرتا ہے اور جوانی سے بڑھاپے تک دولت اکٹھی کرنے اور شاندار طرز زندگی اپنانے کے لیے اپنی زندگی گنوا دیتا ہے ۔
دولت مند اور کامیاب شخص کے قدموں کے نشاں زمانے کی دھول میں بہت جلد مٹ جاتے ہے لیکن اچھے انسان مر کے بھی زندہ رہتے ہیں۔اس لیے تعلیم یافتہ ہونے سے زیادہ ضروری انسان ہو ناہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کہتے ہیں کہ
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جائے تجھ کو دریا تو سمندر تلاش کر
تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں ۔جبکہ تعلیم و تربیت ،کردار سازی اور انسانیت کا مجموعہ ہیں۔تعلیم کی شرح میں اضافے پر زور دینے کی بجائے تعلیم کے بنیادی مقاصد ،اہمیت اورافادیت کو اجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔جس کے لیے والدین ،تعلیمی ادارے کے سربراہان، اساتذہ اور حکومت اپنا بنیادی فرض سر انجام دیں۔تاکہ علم طلبا کے وجود میں سرایت کرے ۔وہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیق کار بھی بن سکیں.
علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے بھی ملے حاصل کرو ۔اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نظام تعلیم اور طلبہ کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے، تعلیم کو چند نصاب کی کتابوں تک محدود کر دینا درست نہیں ، علم کا جام کبھی بھرتا نہیں وقت اور عمر کے ساتھ ساتھ اس کے سائز میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔تعلیم کا مقصد اچھے نمبر اور اچھی ملازمت نہیں بلکہ ایک اچھا شہری ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے خاندان ،قوم و ملک کا سہارا بن سکے ۔
طلباء ہی پاکستان کا مستقبل اور معمار ہیں ۔اگر یہ نہیں سدھریں گے تو آنے والی نسل سے کسطرح خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ علم کسی ڈگری کا نام نہیں اس کھوکھلے نظام تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے والدین ،حکومت اور تعلیمی اداروں کے سر براہان کو مل کر کام کرنا ہو گا ورنہ تعلیم یافتہ معاشرہ بھی زوال کے دوراہے پہ آجائے گا ۔