انیسویں صدی کے فلسفی کارل مارکس اور فریڈریک اینگلز نے سماج کی سائنس میں ایک عظیم تھیوری کا اضافہ کرتے ہوئے عوام کو بتایا تھا کہ اس دور میں دو طبقات ہوتے ہیں: سرمایہ دار اور مزدور۔
زمانہ خاصہ آگے بڑھ گیا ہے اور ان طبقات میں اضافہ تو نہ ہوا ہوگا مگر شکل ضرور تبدیل ہوئی ہوگی۔ البتہ، ایک ایسا طبقہ بھی ہمارے معاشرے خاص کر تیسری دنیا کے ممالک میں پایا جاتا ہے جسے مارکس نے اپنی تحقیق میں اس قدر شامل نہیں کیا تھا۔ یہ وہ طبقہ ہے جو انقلابی راستوں میں حائل ہے، چند پیسوں کے عوض بنی نوع انسان کے زخموں کو پیچتا ہے، مظلوموں کے خون روتی آنکھوں کی تصویر اتار کر ترقی یافتہ ممالک بھیج کر بھیک مانگتا ہے اور اس سے اپنی گاڑیوں، بنگلے، دفتروں میں مزید اضافہ کرتا ہے۔
مارکسی تصانیف میں اسے کمپراڈار طبقہ کہا جاتا ہے جسکے معنٰی ہوتے ہیں وہ خاص لوگ جو سامراجی قوتوں کے ساتھ مل کر اپنے سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں اور اس کے لئیے بین الاقوامی سرمایہ داروں سے امداد پر انحصار کرتے ہیں۔
غیر سرکاری تنظیم یا این-جی-اوز کا نام تو سنا ہی ہوگا؟
سویت یونین کے انہدام کے بعد ان این جی اوز کے طریقہ کار میں اور انکے کاڈر میں بھی بہت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ آج ملک پاکستان میں ان گنت این-جی-اوز نے اپنا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن یہ حیران کن بات نہیں رہی ہے کہ انکے سامراجی عزائم، عوام دشمن پالیسیوں کے باوجود آج انکا کاڈر یا انکے چلانے والے دراصل پچھلے دور کے مارکسی اور ترقی پسند افراد ہیں! یہ حضرات اپنے مفادات کے تحت سرمایہ دار طبقے میں ہی شمار ہونگے مگر یہ ایک دلچسپ سراب ہے جس کی وجہ سے آپ بہت مشکل سے انکی اصل پہچان کا اندازہ لگا پائیں گے۔
سرخ تحریک کا لبادہ اوڑھے، مزدوروں کی مشکلات میں انکے ساتھ شانہ با شانہ کھڑے ہوکر، انکے غم کا مداوا کرنے کے لئیے یہ ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ کوئی بھی عوامی تحریک ہو جیسے کہ جبری طور پر لاپتہ ہونے والے سیاسی کارکنان کے لئیے اٹھنے والی آواز، کسی بڑے منصوبے جیسے لیاری ایکپریس وے سے متاثر ہونے والے کراچی کے مکینوں کی جدوجہد،کھادی برانڈ کے مزدوروں کی ہڑتال، انتہا پسندی اور کالعدم جماعتوں کے خلاف مزاحمت یا حالیہ دنوں ہونے والی کے سی آر کے حوالے سے محنت کشوں کے گھروں کی مسماری کا مسئلہ۔ یہ لوگ افسردہ سی شکل بنائے، چے گیورا یا لینن کا روپ دھارے مظلوموں کے درمیان آ ملیں گے۔ خوب نعرہ بازی کرینگے اور عوام کا اعتماد جیتنے کی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے۔ مسئلے کے حل کے لئیے حکمران طبقے سے ملاقاتیں کرینگے تاکہ مظلوم عوام کو لگے کہ یہ طاقتور لوگ انکے مسائل حل کروانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
انکا اصل مقصد ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ لوگ جمع کرنا، ان سے ‘پر امن’ احتجاج کروانا، خوب ساری تصاویر اور ویڈیوز بنوا کر محفوظ کرنا۔ ایک طرف تو یہ اپنا سوشل کیپیٹل (سماجی سرمایہ) بڑھاتے رہتے ہیں اور دوسری طرف یہ دنیا بھر میں موجود بائیں بازو مخالف اور مارکسزم مخالف کارپوریشن اور آئی-این-جی-اوز سے چندہ اکھٹا کرتے ہیں۔ یہ بات ثابت کرکے کہ ہم عوام کے اندر موجود ہیں یہ کئی ایک ‘پرایجیکٹ’ چلانے کی رقم بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
ان عوامی تحریکوں میں گھس کر یہ حکمران طبقے سے دوستیاں بڑھاتے ہیں، وزیروں یا فوجیوں کے کہنے پر افہام و تفہیم کے ذریعے تحریکوں کو ختم کرنے کی سعی کرتے ہیں جس میں اکثر کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ پریشانی میں مبتلا عوام کو لگتا ہے کہ یہ انکے فائدے کی بات کر رہے ہیں مگر پسِ پردہ یہ سرمایہ داروں کے گماشتوں کے طور پر ہی کام کر رہے ہوتے ہیں تاکہ مستقبل قریب میں ریاست و حکمرانوں سے فائدہ اٹھا سکیں اور ان سے بھی خوب پیسے بٹوریں۔
ان تحریکوں کے دوران یہ لوگوں کو نوکریوں کا جھانسا دے کر خرید بھی لیتے ہیں۔ جہاں دیکھا کہ کوئی نوجوان لوگوں کو جمع کرنے اور راہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسکو اپنے ساتھ بٹھانا شروع کرتے ہیں اور بعد میں اسے اپنے پاس تنخواہ پر لگا لیتے ہیں۔ جو جوان پہلے انسانیت کے جذبے کے تحت اور سماج کو سمجھ کر اپنا وقت اور طاقت سماجی تبدیلی کے لئیے لگا رہا تھا اب صرف چند پیسوں کی غرض سے یہ کام سر انجام دیتا ہے۔ ایسے کتنے ہی جوان، بزرگ ہیں جن میں عوامی یا بائیں بازو کا راہنما بننے کی صلاحیت تھی مگر ان این-جی-اوز نے انہیں پیسوں کا ایسا نشہ لگایا کہ اب وہ مارکسی تنظیم کا کام کرنا تو درکنار بس مارکس کو بیچنے کے لئیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ یہ مسائل کا حل کیا کرینگے یہ تو خود ایک نا حل ہونے والا مسئلہ ہیں۔
ان کا نان و نفقہ اسی بوسیدہ نظامِ زر سے وابستہ ہے تو یہ کیوں اس استحصالی سماج کو بدلنے کی جسارت کرینگے؟
درحقیقت صرف انکے معیار دوہرے نہیں بلکہ انکو دئیے جانے والے خطاب میں بھی کمال کا تضاد ہے۔ یہ غیر-سرکاری تنظیمیں جی بھر کر سرکاری سرپرستی میں اپنا کام کرتی ہیں۔ اکثر تو مسلسل ریاستی اداروں سے ہی چندے پر چلتی ہیں اور حکومت سے منصوبے لے کر کھوکھلے کام کرتی ہیں اور لاکھوں روپے بنا لیتی ہیں۔ وزیروں سے پینگے بڑھانا انکے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ یہ دراصل ریاست کے لئیے ہی کام کرتی ہیں اور کسی بھی قسم کی مزاحمت ختم کرنے کے لئیے حکومتوں کے ساتھ مل کر غیرمحسوس انداز میں عوام کی صفوں میں شامل ہوکر ریاستی بیانیے کو آگے بڑھاتی ہیں۔
ان این-جی-اوز کے نام نہاد ڈایریکٹرز کو پہچاننا وقت کی ضرورت ہے۔ انکا طبقاتی کرداراور تحریکوں میں انکا منفی رویہ، جو عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا رہا ہے، سمجھ کر ہی ہم عوام ان سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ لہذاٰ اگر آپ تحریکی ہیں اور اگر آپکو ان میں سے کسی کا سامنا ہو تو ضرور کہیئے کہ آپ کے سامنے مظلوم، محکوم لوگوں کے دکھوں کا سودا نہیں کیا جاسکتا، عوام کو جھوٹی تسلی دے کر تحریکوں کو ختم کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔
مصنف فواد حسن کراچی میں صحافت سے وابستہ ہیں۔ آج کل سوچ ویڈیوز کے لئیے بحثیت نامہ نگار کام کر رہے ہیں۔