ایک دو نمبر کام کرنے والا جنّتی!

وہ انتہائی گھٹیا اور کمینہ شخص تھا۔ وہ کمینہ صرف تھا ہی نہیں بلکہ لگتا بھی تھا۔ وہ جب میری کسی بے تکی سی بات پر خوشامدانہ ہنسی ہنستا تو مجھے احساس ہوتا کہ جس بات کو میں صرف بےتکی سمجھا تھا، وہ بہت احمقانہ بھی تھی۔ وہ دانت سکوڑ کر بات کرتا۔ اس دوران اس کا چہرہ کھنچ جاتا۔ اس کے سر پر جتنے بال تھے وہ گنے جا سکتے تھے۔ اس کی ناک سامنے سے قدرے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی اگر یہ قدرے زیادہ لمبی ہوتی تو اسے ہاتھی کی سونڈ سے تشبیہ دی جاسکتی تھی۔ اس کے نتھنے چوڑے تھے۔ لگتا تھا جیسے ان میں ہوا بھری ہوئی ہے۔ رنگ گندمی، آنکھیں ’’کول ڈوڈوں‘‘ جیسی تھیں یعنی بالکل ’’کول ڈوڈوں‘‘ جیسی (اس لفظ کا ترجمہ اگر ہے تو یہی ہے) چہرہ قدرے پھولا پھولا اور تھوڑی سی توند نکلی ہوئی۔ وہ بہت امیر آدمی تھا۔ کروڑوں کی جائیداد تھی لیکن اللہ نے اس پر ہر آسائش اور رزقِ حلال حرام کیا ہوا تھا۔ وہ نہایت سستے کپڑے پہنتا تھا۔ اس کا کوئی ایک روپ نہیں تھا۔ وہ دن میں موقع محل کے مطابق کتنے ہی روپ بدلتا، اگر اسے مجھ سے کوئی کام ہوتا تو اس کی خوشامدانہ ہنسی رکے نہ رکتی اور اگر کوئی کام نہ ہوتا تو اس کا چہرہ مزید کھنچ کر پہلے سے زیادہ منحوس ہو جاتا۔

اس کا کوئی نظریہ کوئی عقیدہ نہیں تھا مگر بوقتِ ضرورت وہ ہر نظریہ اور ہر عقیدہ اوڑھ لیتا تھا۔ وہ کبھی کبھار مسجد میں بھی جاتا تھا مگر کچھ اس طرح کہ سب نمازیوں کو اس کی آمد کی خبر ہو جاتی تھی۔ وہ مسجد میں داخل ہوتے ہی پہلے ایک زور دار ’’کھنگورا‘‘ مارتا جس پر نمازیوں کی نظریں اس کی طرف اٹھ جاتیں۔ اس کے بعد وہ ایک سستے سے عطر کی شیشی ہاتھ میں پکڑے ایک ایک نمازی کے پاس جاتا اور اس کی قمیص پر یہ عطر لگاتا، جس کی وجہ سے وہ اسے ہمیشہ یاد رکھتے کیونکہ اس عطر کا نشان عمر بھر جاتا نہیں تھا۔ عید میلاد النبی ؐکے جلوس میں وہ عربی لباس میں ملبوس اونٹ پر سوار نظر آتا اور محرم میں کالی قمیص پہن کر پھرتا۔

اس کا کوئی ایک کاروبار بلکہ دھندا نہیں تھا بلکہ وہ ہر دو نمبر کام کرتا تھا اور اس سے اس نے کروڑوں کی جائیداد بنائی تھی۔ لالہ موسیٰ میں اس کی جعلی کاسمیٹکس کی فیکٹری تھی۔ شیخوپورہ روڈ پر اس نے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی بھی بنائی ہوئی تھی جہاں جعلی ادویات تیار ہوتی تھیں۔ قبضہ گروپ سے بھی اس کے رابطے تھے۔ شنید ہے کہ اس نے ایک صاحب سے تیس لاکھ روپے یہ کہہ کر اینٹھے تھے کہ سو سو کے جعلی ڈالر تیار کرنے کا پورا ساز و سامان اس کے پاس موجود ہے چنانچہ وہ اگر اس ’’پروجیکٹ‘‘ میں شامل ہونا چاہے تو صرف تیس لاکھ کے عوض وہ دنوں میں کروڑ پتی بن جائے گا۔

ایک دن اسے مجھ سے کوئی کام تھا۔ سو اس روز اس کی خوشامدانہ ہنسی دیدنی تھی۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا ’’چوہدری! ایک بات تو بتاؤ؟‘‘ دانت نکال کر اور اپنے گول گول دیدے گھماتے ہوئے بولا ’’سرکار! پوچھیں‘‘۔ میں نے کہا ’’تم دو نمبر کام کرتے ہو، کبھی ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں ہوا؟‘‘ یہ سن کر اس نے اپنا منہ اتنا زیادہ کھول کر قہقہہ لگایا کہ اسکے حلق کا ’’کوّا‘‘ دکھائی دینے لگا۔ اس کا جواب یہ قہقہہ ہی تھا۔

میں نے پوچھا ’’اور یہ جو تم کروڑوں کے مالک ہونے کے باوجود ویگنوں اور بسوں میں دھکے کھاتے ہو، کوئی تمہیں تمہارے اسٹیٹس کے مطابق نہیں ملتا؟ ہر ایک تم سے توتکار ہی کرتا ہے تو یہ دو نمبر دھندوں سے کمائی ہوئی دولت کس کام کی؟‘‘ اس دفعہ وہ کچھ سنجیدہ ہو گیا اور کہا ’’سرکار! آپ نے کبھی ایک کروڑ روپیہ اکٹھا دیکھا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ابھی تک تو نہیں!‘‘ بولا ’’پھر آپ کو کیا پتہ دولت کیا چیز ہوتی ہے اور اس میں اضافہ اور اسے سنبھالا کیسے جا سکتا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’چلو مان لیتا ہوں کہ مجھے اس ’’سائنس‘‘ کا کوئی علم نہیں، مگر یہ بتاؤ چوہدری کہ کیا تم موت پر یقین رکھتے ہو؟‘‘ بولا ’’اس سے انکار کون کر سکتا ہے، یہ تو ایک حقیقت ہے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیا تمہارا آخرت پر بھی یقین ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’میں ایک لبرل قسم کا شخص ہوں۔ سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مرنے کے بعد حساب کتاب تو ہونا ہے؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’اور اگر حساب کتاب ہونا ہے تو پھر یاد رکھو فرشتوں نے تمہاری خاطر مدارت کے لئے ابھی سے دس نمبر ’’چھتر‘‘ تیل میں بھگو کر رکھا ہوا ہے‘‘ اس پر چوہدری بھی ہنسا اور بولا ’’آپ فکر نہ کریں میں نے بھی حفاظتی بندوست کر رکھے ہیں‘‘۔

وہ اٹھ کر جانے ہی کو تھا کہ مجھے یاد آگیا کہ اس نے اتنی دولت کے باوجود اپنی حالت یتیموں جیسی بنا رکھنے کے سوال کا جواب تو دیا ہی نہیں۔ میں نے یاد دلایا تو اس نے جواب دیا ’’سرکار! میں اپنے گھر میں اور دوسرے شہر یا ملک میں جا کر ٹھاٹ باٹ سے رہتا ہوں۔ یہاں آکر ٹھاٹ باٹ سے رہوں تو لوگ یا ادھار مانگنے لگتے ہیں اور یا پھر یرغمال بنا کر کروڑوں روپے تاوان طلب کرتے ہیں اور سرکار حق حلال کی کمائی اس طرح تو نہیں لٹائی جاتی‘‘۔ مجھے اس وقت بہت مزا آیا جب اپنی اس بات پر اسے خود بھی ہنسی آگئی۔ یہ چوہدری سے میری آخری ملاقات تھی۔ چند دنوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ ہارٹ اٹیک سے فوت ہو گیا ہے۔

ایک دن سر راہے اس کے بیٹے سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے رسمی طور پر تعزیت کی تو اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’والد صاحب بہت خوش قسمت تھے کہ ان کی وفات رمضان کے مہینے میں ستائیسویں شب کو ہوئی۔ یہ نعمت صرف اللہ کے نیک بندوں ہی کو نصیب ہوتی ہے‘‘۔

آخر میں فیس بک سے چرائی ایک جگت پیش خدمت ہے:

حاجی نصیر الدین قضائے الٰہی سے گزشتہ روز انتقال کر گئے۔ ایف بی آر کے بقایا 116,000روپے جمع کروا کے ایف بی آر سے کلیئرنس لینے کے بعد ان کی نمازِ جنازہ ان کے آبائی قبرستان میں ادا کی جائے گی۔

لواحقین:حاجی قمر الدین فائلر۔ بیٹا

حاجی بشیر الدین فائلر۔ بیٹا

سمیع الدین نان فائلر۔ پوتا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے