مجھے میری مرضی کے بغیر پیدا کیوں کیا؟

معاملہ یہ ہے کہ ایل جی بی ٹی تو کہیں پیچھے رہ گئی ہے، اور ایسے لوگ وجود میں آ گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ انہیں کتے اور بلیاں سمجھا جائے اور اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے۔ ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک ماں اپنے بیٹے کے بارے میں کہہ رہی ہے کہ ’’میرا بیٹا سمجھتا ہے کہ وہ ایک بِلّا ہے اور میں اُس کی سوچ کا احترام کرتی ہوں اور میں اسے ایک بِلّے کی طرح ہی پال پوس کر بڑا کر رہی ہوں، میری کوشش ہے کہ اسے وہ خوراک دی جائے جو انسانوں اور بِلّوں دونوں کیلئے محفوظ ہو جیسے کہ مچھلی۔ میں جانتی ہوں کہ اگر اُس کے خون کا ٹیسٹ کروایا جائے تو وہ انسان ہی نکلے گا مگر وہ خود کو چونکہ بِلّا سمجھتا ہے اِس لیے میں اسے بِلّے کے طور پر ہی دیکھتی ہوں، میں اُسے اسکول نہیں بھیجتی، تاہم بچوں کو تعلیم نہ دینا چونکہ غیر قانونی ہے اِس لیے میں گھر پر ہی اُس کی تعلیم کا بندوبست کرتی ہوں، وہ انگریزی نہیں جانتا، وہ محض مجھے میاؤں کہہ کر مخاطِب کرتا ہے۔‘‘

اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِس ویڈیو کو بنانے والی سنجیدگی سے یہ باتیں کر رہی تھی یا اُن لوگوں کا توا لگا رہی تھی جنہیں آج کل یہ خمار چڑھا ہوا ہے کہ وہ خود کو جو چاہیں سمجھیں کیونکہ یہ اُن کے دل کا معاملہ ہے۔ میں نے کچھ مزید تحقیق کی تو پتا چلا کہ مغرب میں واقعی ایسے لوگ موجود ہیں (فی الحال اُن کی تعداد کم ہے) جو خود کوکتّے یا بِلیاں سمجھتے ہیں، ایک آدھ ویڈیو میں تو دو لوگوں کو باقاعدہ سڑک پر کتّوں کی طرح پنجوں کے بل چلتے ہوئے بھی دیکھا، ’مالکان‘ نے اُن کے گلے میں پٹا بھی ڈالا ہوا تھا۔ ایک لمحے کیلئے لگا شاید یہ پاکستان ہے۔ اسی طرح ایک اور ویڈیو دیکھی جس میں عورت نے ایک مرد کو بِلّی بنا کر (بِلّا نہیں) پٹا ڈالا ہوا تھا اور وہ بندہ کہہ رہا تھا کہ ’’میں اب زندگی کا مقصد جان گیا ہوں، کچھ لمحوں کیلئے یہ محسوس کرکے بہت اطمینان ہوتا ہے کہ آپ انسان نہیں ہیں۔‘‘ یہاں اُس کی مالکہ لقمہ دیتی ہے کہ ’’کیا واقعی یہ زندگی حقیقی ہے یا پھر محض معاشرے کی فرسودہ روایات ہیں جن کو ہم نے حقیقت مان لیا ہے۔ دراصل یوں پالتو جانور بن کر ہم معاشرے کی اِن زنجیروں سے خود کو آزاد کر سکتے ہیں۔ اور یہ میری بِلّی تو ایک ایوارڈ یافتہ بِلّی ہے۔‘‘ اِس سے پہلے کہ آگے چلیں، ایک اور ویڈیو کے مندرجات ملاحظہ کرلیں، اِس میں ایک لڑکی ایل جی بی ٹی والوں سے سوالات کر رہی ہے کہ وہ اپنی جنس کی وضاحت کرکے بتائیں کہ وہ کیا ہیں، میں نے اِس کا اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہو سکا:

I am gender queer trans masc and queer. Trans masc is like people under the non binary umbrella identifying like or presenting masculine. I am trans and my sexualities are un-labelled, I use he him pronounce. I am fluid which means whatever turns you on. she, her, it, I feel like honestly honestly it should not be a bad thing like I have talked to people who go with they and them, I am like well in the grammar of things how would you want to represent yourself? I was like I mean I guess it, because it’s like you are it, you are the it

کچھ بھی لکھنے سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ حاشا و کلا میرا مقصد کسی بھی طبقے کی دل آزاری نہیں، خاص طور سے ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں اِن طبقات سے تعلق رکھنے والے غیر محفوظ بھی ہیں اور انہیں تحقیر کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کی مثالیں یہاں دی گئی ہیں وہ بہرحال پسے ہوئے طبقات سے تعلق نہیں رکھتے، انہیں اگر بہت بھی رعایت دی جائے تو ’کنفیوژڈ‘ کہا جائے گا جنہیں کچھ نہیں پتا کہ وہ کیا ہیں اور زندگی سے کیا چاہتے ہیں۔ اگر اِس دلیل کو درست مان لیا جائے کہ یہ کسی بھی شخص کی مرضی ہے کہ وہ خود کو کیا سمجھتا ہے چاہے وہ مرد ہو اور خود کو عورت سمجھے یا عورت ہو اور خود کو بِلّی سمجھے تو پھر اِس خرافات کی کوئی حد نہیں ہے، پھر کوئی بھی خود کو کچھ بھی سمجھ کر کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اِس کے بعد کوئی مرد اطمینان سے خواتین کا واش روم استعمال کرکے کہہ سکتا ہے کہ میں چونکہ Fluid ہوں اور اِس وقت مجھے لگا کہ مجھ میں ایک عورت کی روح حلول کر گئی ہے تو میں نے خواتین کے ٹوائلٹ میں جانا مناسب سمجھا۔

یہ سب چیزیں دیکھ کر میرا ایمان اِس بات پر مزید پختہ ہو گیا ہے کہ ضروری نہیں کہ جو نیا نظریہ یا طرزِ زندگی مغرب کی طرف سے آئے وہ پرفیکٹ ہو۔ ہم مغرب کی ترقی سے اِس قدر مرعوب ہیں کہ یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ اُن کے افکار اور وچار بھی بیہودہ اور مضحکہ خیز ہو سکتے ہیں۔ ایل جی بی ٹی کا معاملہ کچھ ایسا ہی ہے، وہاں معصوم بچوں کے نصاب میں یہ باتیں شامل کر دی گئی ہیں تاکہ بچوں کو شروع سے ہی یہ علم ہو کہ ’خالص‘ مرد اور عورت کے علاوہ بھی جنسی میلان ہو سکتا ہے جو بالکل نارمل ہو گا، گویا جس عمر میں بچوں نے یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ انہیں آئس کریم کھانی ہے یا چاکلیٹ، اُس عمر میں وہ یہ سوچیں گے کہ جنس کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔ بے شک مغرب میں بھی اِن انتہا پسند رویوں پر تنقید کی جاتی ہے مگر یہ رویے شخصی آزادی کے جس بنیادی اصول کی وجہ سے پنپ رہے ہیں وہ مغرب کا ہی عنایت کردہ ہے۔ بے شک شخصی آزادی کے اصول کی مخالفت نہیں کی جا سکتی مگر اِن رویوں کو دیکھتے ہوئے اب لگتاہے کہ اِس اصول پر بھی نظر ثانی کرنی پڑے گی۔

اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جب ہم اپنے رویوں کے اظہار کیلئے زبان کا سہارا لیتے ہیں تو کیا اُس میں کلّی طور پر کامیاب ہوتے ہیں یا وہ اظہار مزید الجھاؤ پیدا کرتا ہے۔ اِس وقت مغرب کا جو طبقہ اِن انتہا پسند رویوں کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ محض زبان کے اُلٹ پھیر سے کام لے رہا ہے، لیکن اگر اسی بات کو اُن کے حق میں استعمال کرنا ہو تو ہم کہیں گے کہ اِن لوگوں کا جنسی میلان اِس قدر پیچیدہ ہے کہ مروجہ انسانی زبان اسے بیان کرنے سے قاصر ہے۔ لیکن یہ دور کی کوڑی ہے، یہ لوگ اپنے جنسی میلان کا جس طرح اظہار کر رہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کوئی بچہ پنگھوڑے میں انگوٹھا چوستا ہوا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے کہے گا کہ میرے ماں باپ نے مجھے میری مرضی کے بغیر پیدا کیا لہٰذا میں اُن پر مقدمہ دائر کروں گا۔ اِنّا للہ و اِنّا الیہ راجعون۔
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے