سپریم کورٹ کی جانب سے غدار قرار دیکر سزائے موت کا فیصلہ پانے والے سابق آمر پرویز مشرف کے بارے میں مسلم لیگ ن اگر چہ خاموش ہے تاہم مسلم لیگ ن کے رہ نما اور سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ اگر پچاس برس پہلے سپریم کورٹ ایسا فیصلہ سناتی تو پاکستان کو ایسا دن نہ دیکھنا پڑتا .
اس پر اے آر وائی چینل پر پروگرام کرنے والے تحریک انصاف کے اینکر اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین نے ٹویٹ کی کہ اگر پچاس سال پہلے سپریم کورٹ ایسا فیصلہ دیتی تو پھر ضیاٗ الغق آتا اور نا ہی شریف برادران کبھی سیاست میں آتے ۔ انہوں نے یہ ٹویٹ کر کے لوگوں سے اتفاق کی صورت ریٹویٹ کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔
چوہدری غلام حسین اور احسن اقبال کی اس ٹویٹ پر سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق نے کہا ٹویٹ کیا کہ ” کیا یہ آپا نثار فاطمہ کا بیٹا کہہ رہا ہے ”
[pullquote]احسن اقبال کی والدہ آپا نثار فاطمہ کون ہیں ؟[/pullquote]
روزنامہ دنیا کراچی کے صحافی عبدالجبارناصر نے کچھ عرصہ پہلے احسن اقبال کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ
اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں جولائی 1984 میں ایک لبرل خاتون نے آقائے جہاں (جن کے جوتوں کی خاک پرہمارا مال و جان سب کچھ قربان ہو)حضرت محمدﷺ کی شان اقدس پر گستاخانہ جملے استعمال کئے اور اس کی باز گشت ایک اور خاتون آپا نثار فاطمہ مرحومہ تک پہنچی اور پھر ختم بنوت کی تحریک کا حصہ بن گئی بلکہ محرک بن گئی۔ ان کا بیٹا(احسن اقبال) ماں کی انگلی پکڑے نعتیں پڑھتا اور مسلمانوں کے ایمانی لہو کو گرماتا۔ماں عاشقان میں تبلیغ کرتی تو بیٹا خوبصورت آواز میں اپنی نعتوں جذبہ عشق کو تازہ کرتا، شہر شہر ماں بیٹا پہنچ گئے اور یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔مرحومہ 1982 میں شہید جنرل محمد ضیاء الحق مجلس شوریٰ میں ممبر بنی تو افتتاحی اجلاس میں جنرل صاحب خود شریک تھے ۔مکمل حجاب کے ساتھ پچھلی نشستوں سے ایک خاتون(آپا نثار فاطمہ) اٹھیں اورجنرل ضیا کو مخاطب کر کے کہا جنرل صاحب میری دوباتیں۔ایک جمہوریت کیلئے اور دوسری آزادی صحافت کے حق میں۔آپ نے شوریٰ بنادی، شوریٰ کے ذریعے انتقال اقتدار کی راہ ہموار ہونی چاہیےاوراخبارات پرپیشگی سنسرشپ ختم کی جائے۔
اسی دوران ملک میں غیر جماعتی انتخابات بھی ہوئے اور تحریک ختم نبوت بھی زوروں پر تھی۔ ہر مسلمان اپنا حق ادا کر رہا تھا۔ عدالتی جنگ میں لاہور کے ایک وکیل محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ سرگرم تھے۔ اسمبلی میں آپا نثار فاطمہ پیش پیش تھیں ،اسی دوران اس خاتون اور چند دیگر ارکان نے توہین رسالت کے ملزمان کے خلاف کارروائی کے لئے قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی مگر یہ قرارداد منظور نہ ہوسکی، اس قرار داد کا مقصد شاتمان رسول کے لئے سزائے موت قانون بنواناتھا۔ راوی کے مطابق آپا نثارفاطمہ مرحومہ نے ہمت نہ ہاری اور اپنے مشن پر نکلی کراچی میں مولانا شاہ بلیغ الدین مرحوم کے ہاں پہنچ گئی اور دامن پھیلا کر کہا علامہ صاحب کوئی ہمارے آقا کی گستاخی کرے اورہم خاموش ہوجائیں نہیں!
آپ تقریر تیار کیجئے ہم ایک اور کوشش کرتے ہیں، آپا مرحمومہ نے جھولی پھیلادی،علامہ بھی تیار ہوئے کئی روز تقریر کی تیاری ہوئی ، اس دوران آپا مرحومہ کی جدوجہد ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئی، جلسے تو جاری تھے اور آپامرحومہ کا بیٹا نعتیں پڑھ پڑھ کر لوگوں کے ایمان تازہ کرتا،آپامرحومہ اور علامہ شاہ بلیغ الدین مرحوم نے ملکر ایک مدلل تقریر تیار کی اور اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہنچے ۔
صدر (غالباً حامد ناصر چھٹہ)اجلاس سے آپا نثار فاطمہ اور چند دیگر ارکان مخاطب ہوئے اور کہا جناب چیئرمین ہمیں معلوم ہے کہ ہماری قرار داد مسترد ہوگی، بس گزارش اتنی ہے کہ علامہ شاہ بلیغ الدین کو تقریر کی اجازت دیں، صدر اجلاس نے اجازت دی اور پھر علامہ صاحب کئی گھنٹے تک بولتے ہی گئے اورجب تقریب ختم ہوئی تو ہر آنکھ اشکبار تھیں اور قرارداد منظور ہوئی اور اسی قرارداد کی روشنی میں پھر آپانثار فاطمہ مرحومہ نے قومی اسمبلی میں تعزیرات پاکستان میں دفعہ‘ 295 سی کابل جس کی رُو سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘ سزائے موت تجویز کی گئی‘ پیش کیا اور بل متفقہ طور پر منظور ہوا۔
مگرآج(6مئی 2018 کو) اسی آپا نثار فاطمہ مرحومہ کے اسی فرزند (وفاقی وزیر داخلہ چودھری احسن اقبال )کوجو ختم نبوت کے جلسوں کی نعتیں پڑھ پڑھ کر مسلمانوں کے ایمان کو تازہ کر تا اور عظیم مبلغ مولانا امین اصلاحیؒ کے نواسے کو ’’گستاخ رسول‘‘قرار دے کر قاتلانہ حملہ کرکے زخمی کیاگیا۔
احسن اقبال کی والدہ نثار فاطمہ جنہیں آپا نثار فاطمہ بھی کہا جاتا ہے ، جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ آپا نثار فاطمہ نے 1986 میں توہین رسالت ﷺکا قانون اسمبلی میں پیش کیا۔ ان کی جانب سے پیش کیاجانے والا قانون 295 سی اسمبلی سے منظور کرلیا گیا جس میں توہین رسالت ﷺکے مرتکب شخص کیلئے کم از کم سزائے موت تجویز کی گئی تھی، لیکن اس وقت کے وزیر قانون اقبال احمد خان نے آخری منٹ پر اس قانون میں عمر قید کا اضافہ کردیا۔
15 اپریل 2016 کو روزنامہ نوائے وقت میں سلیمان کھوکھر نے اپنے کالم میں آپا نثار فاطمہ اور احسن اقبال کا تعارف ان الفاظ میں لکھا
[pullquote]اگر پرویز مشرف پاکستان سے باہر گئے تو وہ نہ صرف وزارت بلکہ سیاست چھوڑ دوں گا. احسن اقبال [/pullquote]
Apr 15, 2016
شادش بخیر ایک آپا نثار فاطمہ ہوا کرتی تھیں۔ نارووال کے کسی سرحدی علاقے کی رہنے والی تھیں۔ جماعت اسلامی سے بڑا قلبی تعلق تھا۔ جب ضیاء الحق نے شب خون مارا تو انکے خون نے بھی جوش مارا اور براستہ جماعت اسلامی ضیاء الحق کی نامزد مجلس شوری کی رکن بن گئیں۔ اور سیاسی طور پر ضیاء الحق کی حمایت میں خوب مصروف ہو گئیں۔ الیکٹرانک میڈیا تو تھا ہی نہیں پرنٹ میڈیا پر تقریباً روزانہ انکے بیانات سیاسی تجزیے اور تبصرے اخبارات کی زینت ہوتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے موقع پر مٹھایاں تقسیم کرنے کے بعد جب انکی اہمیت میں اضافہ ہوا تو حدود اربعہ کسی وفاقی وزیر کے برابر ہی کر لیا۔ اگرچہ کابینہ کی رکن نہیں تھی۔ آپا نثار فاطمہ کو اللہ نے ایک پیارا سا بیٹا بھی دیا ہوا تھا جو انکے زیر سایہ آمریت کی فیوض و برکات کا قائل ہوا اور آمریت کی گود میں ہی پرورش پائی۔
جوں جوں یہ بچہ جوانی کی منازل طے کرتا رہا توں توں اسکے دماغ کے گوشوں میں ضیاء الحق کے کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا رہا۔ اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے۔ خلوت و جلوت میں اور سیالکوٹ کی سڑکوں پر پرانی سی سوزوکی جیپ چلاتے مرد مومن۔ مرد حق کا ورد کرتا رہتا۔ کیونکہ اسے یہ پختہ یقین تھا کہ ضیاء الحق کو کوئی طاقت نہیں ہٹا سکتی کیونکہ اللہ اسکے ساتھ ہے مگر یہ بھول گیا کہ دوسری طرف اللہ کی مخلوق ہے جسکی گردن اس نے دبوچ رکھی ہے۔ مخلوق خدا کو بیچ چوراہوں کے ٹکٹیاں گاڑ کر کوڑے مارے جاتے۔ مغلیہ عہد کے شاہی قلعے۔ بدنام زمانہ چونا منڈی CIA اور وارث رروڈ کے عقوبت خانوں میں ان کی جوانیاں پگھلا کر انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا گیا۔ کئی ایک پھانسی کے پھندوں میں جھول گئے۔
پیپلز پارٹی کے سیاسی کارکنوں نے خود سوزیاں کر لیں۔ ایم آر ڈی کے وکلاء صحافی اور سیاسی کارکن تو گویا چونٹیاں تھیں جنہیں جب چاہا ضیاء الحق نے مسل ڈالا۔ یہ الگ بات کہ ان کا جذبہ ہمالہ سے بھی بلند تھا لاکھوں سیاسی کارکنوں اور کروڑوں پاکستانیوں کے مستقبل تباہ کر دیئے گئے۔ مگر حیرت ہے کہ آپا نثار فاطمہ اس سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ بیٹا جوان ہو چکا تھا اور اسلامی جمعیۃ طلباء کا تڑکا بھی لگ چکا تھا۔ یہ ہونہار بیٹا انجینئرنگ یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا تو مکمل طور پر ’’ضیائی‘‘ بن چکا تھا۔ گوجرانوالہ بار کے سابق صدر اور پنجاب بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین فرخ محمود سلہریا صاحب کا ضیاء الحق کے پھوپھی زاد جسٹس میاں جہانگیر سے گہرا تعلق خاطر تھا۔
سلہریا صاحب بتاتے ہیں کہ میاں جہانگیر کے ہمراہ جب وہ ضیاء الحق کے جنازے میں شریک ہوئے تو ایک بڑے جنازے میں صرف دو لوگوں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایک میاں محمد نواز شریف اور دوسری آپا فاطمہ۔ اللہ اپنی مخلوق کی مدد کو آیا اور اسے ضیاء الحق کا جنازہ دیکھنا نصیب ہوا۔ نہ نواز شریف کے اندر سے ضیاء الحق نکل سکا اور نہ ہی آپا نثار فاطمہ کے بیٹے احسن اقبال کے۔ وقت اور ’’ضیائی فکر‘‘ آگے بڑھتا رہا۔ اگرچہ دونوں نے چند سال بعد اسلام آباد میں واقع ’’جبڑا چوک‘‘ پر ضیاء الحق کی قبر پر جانا ترک کر دیا ۔
نواز شریف جب دوسری بار وزیراعظم بنے تو احسن اقبال ان کی کابینہ کے ممبر بنے اور پروگرام 2010ء کے کوآرڈی نیٹر کا قلمدان اسکے سپرد کر دیا۔ احسن اقبال کا انتخاب نواز شریف کیلئے بڑا منحوس ثابت ہوا۔ 12اکتوبر 1999ء کو پھر ایک فوجی آمر آ گیا وردی وہی تھی مگر اندر جنرل ضیاء الحق کی بجائے جنرل پرویز مشرف تھا۔ جب نواز شریف اٹک قلعہ میں سلاخوں کے پیچھے پہنچے تو تب معلوم ہوا کہ آمریت کیس بلا کا نام ہے۔ نواز شریف کو خادم حرمین شریفین نے بچا بھی لیا اور بلا بھی لیا۔ رہے احسن اقبال تو وہ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان بن کر کبھی لندن اور کبھی نیویارک کبھی جدہ تو کبھی دبئی میں اپنا وقت گزارتے رہے۔ وقت نے ایک بار پھر کروٹ لی اور نواز شریف NROکا فائدہ اٹھا کر پاکستان آئے اور تیسری بار وزیراعظم بن گئے احسن اقبال اب کی بار بھی انکے وزیر برائے اقتصادی منصوبہ بندی بنے۔ نواز شریف کی حکومت چلنا شروع ہوئی۔احسن اقبال نے ابھی وزارت کے کاغذات و فائلیں درست کرنا شروع کی تھیں کہ نواز شریف کو پرویز مشرف پر غداری کا مقدمہ چلانے کا شوق چرایا۔
جھٹ مقدمہ قائم کیا گیا اور انہیں عدالتوں میں گھسیٹنے کا پروگرام بن گیا۔ کچھ اہل نظر ساتھیوں نے روکا بھی کہ اس سے منزل کھوٹی ہو گی اور ہم ایک غیر اہم مسئلہ میں پھنس جائینگے اور دیگر ریاستی امور چلانے کیلئے مشکلات پیش آئیں گی لہٰذا پرویز مشرف کو پاکستان سے باہر جانے دینا چاہے مگر اقتدار کی راہداریوں میں خوشامدی وزرا نے کہا مقدمہ چلانا چاہتے ہیں کیونکہ صاحب ایسا چاہتے ہیں۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور خواجے کے گواہ ’’ڈڈوئوں‘‘ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔ مگر آپا نثار فاطمہ کے آمریت میں پلے بڑھے بیٹے احسن اقبال نے تو سب کو پہلے حیران اور پھر پریشان کر دیا اور کسی غیرت مند سیاستدان کی طرح کہا کہ اگر پرویز مشرف پاکستان سے باہر گئے تو وہ نہ صرف وزارت بلکہ سیاست چھوڑ دینگے اور یہ سب کچھ بدقسمتی سے انہوں نے الیکٹرانک میڈیا کے چینلز پر کہا جس کی تردید دستاویزی طور پر ممکن ہی نہیں۔ اگرچہ پاکستان میں نئی روائت ہو گی مگر کہیں سے تو ابتدا ہونی چاہئے۔
ہمیں امید رکھنی چاہئے کہ وہ اپنی بات کا پاس رکھیں گے اور سیاسی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مستعفی ہو جائینگے۔ مگر یقین نہیں آتا کہ وہ استعفیٰ دینگے بلکہ ایک بات کا یقین البتہ ہے کہ وہ استعفیٰ کا مطالبہ کرنیوالوں کیخلاف ڈٹ جائینگے۔ میرا تجربہ اور مشاہدہ کہتا ہے کہ اگر احسن اقبال مستعفی ہو جائیں تو پاکستان کے دوسرے ذوالفقار علی بھٹو بن سکتے ہیں۔ احسن صاحب شیر بنیں شیر اور ہاں ایک مشورہ دینا تو بھول ہی گیا کہ… قدم بڑھائو احسن اقبال ہم تمہارے ساتھ ہیں۔