برکینا فاسو: ’والد کے ساتھ چرچ اور میرے ساتھ مسجد جاتی ہے‘

افریقی ملک برکینا فاسو میں مشتبہ اسلامی شدت پسندوں کے حملوں میں 31 عورتوں سمیت 35 عام شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔یہ حملے کرسمس سے ایک دن قبل پیش آئے۔برکینا فاسو میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ برکینا فاسو کے پڑوسی ملک مالی میں اسلامی شدت پسندوں کے حملے عام ہیں اور اس کے اثرات سرحد پار برکینا فاسو میں بھی پھیلتے نظر آ رہے ہیں۔

لیکن اس ملک میں مذہبی ہم آہنگی کی تاریخ بھی موجود ہے۔ ایسے خاندان موجود ہیں جن میں مسلمان اور مسیحی برادری کے افراد موجود ہیں اور یہ ملک کی آبادی کا 23 فیصد حصہ ہیں،صحافی کلائر میکڈوگل نے دارالحکومت میں موجود کچھ ایسے ہی خاندانوں سے ملاقات کی۔پانچ سالہ ایرس اوسنیا اوتارا کے والدین نے برکینا فاسو میں ان کی پرورش کیتھولک اور مسلم دونوں مذہبی روایات کے مطابق کی۔ایرس کرسمس منا رہی ہیں لیکن وہ عید کا تہوار بھی مناتی ہیں۔

ایرس کی والدہ افوساتو کا کہنا ہے کہ یہ میرے ساتھ جمعے کو مسجد جاتی ہیں اور اتوار کو والد کے ساتھ چرچ جاتی ہیں۔ڈینسس اور افوساتو چھ سال پہلے توسیانہ میں رہتے تھے جو برکینا فاسو سے 55 کلومیٹر دور ایک دیہی علاقہ ہے۔انھوں نے ایک دوسرے سے ملنے کے ایک سال بعد شادی کا فیصلہ کیا۔ شادی کی اس تقریب میں دونوں کی مذہبی روایات کو احترام دیا گیا۔ڈینس نے عارضی طور پر اسلام قبول کیا جو کہ کچھ مسیحی مرد شادی کے اسلامی فریضے سے پہلے دلہن کے رشتہ داروں کی خوشی کے لیے کرتے ہیں۔

افوساتو اب بھی اپنی والدہ کو اس رشتے کو تسلیم کرنے کے لیے منانے کی کوشش کرتی ہیں کیونکہ مذہب اسلام میں لڑکی کے لیے اپنے ہم مذہب سے شادی کرنا ضروری ہوتا ہے۔تاہم برکینابو میں مسلمان اور مسیح اپنی عبادت گاہوں میں ایک دوسرے کو خوش آمدید کہتے ہیں۔افوساتو کے بہت سے مسیحی دوست ہیں اگرچہ وہ کرسمس کے دن چرچ نہیں جاتیں لیکن اپنے سسرال والوں کے ساتھ کرسمس مناتی ہیں اور اپنا مذہبی تہوار عید بھی مناتی ہیں۔

اب افوساتو اور ڈینس نے یہ ایرس پر چھوڑا ہے کہ وہ بڑی ہو کر کس مذہب کو اپناتی ہیں۔ مگر ابھی وہ چرچ بھی جاتی ہیں اور مسجد بھی۔ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے منسلک گروپ اس حملے کے پیچھے ہیں جو اس علاقے میں متحرک ہیں۔حکام نے کہا ہے کہ ملک کے شمالی صوبے صوم کے اربندا علاقے میں جنگجوؤں کے حملے میں سات فوجیوں سمیت 80 جنگجو بھی مارے گئے ہیں۔

صدر روچ مارک کرسچیئن کبورے نے ملک میں دو روز کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔حالیہ برسوں میں جہادی گروہ برکینا فاسو اور شمالی افریقہ کے کئی دوسرے کئی ممالک میں اپنے حملوں میں تیزی لائے ہیں۔گذشتہ ہفتے فرانس کےصدر ایمینوئیل میخواں نے افریقہ کے ساحل علاقے میں جنگجوؤں کے مزید حملوں کی بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلے کچھ ہفتے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔منگل کے روز ہونے والے حملے کئی گھنٹوں تک جاری رہے جن میں درجنوں موٹر سائیکل سوارجنگجوؤں نے حصہ لیا۔

رواں ماہ کے اوائل میں برکینا فاسو کے شمالی علاقوں میں ایک گرجا گھر پر ہونے والے حملےمیں کم از کم چودہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔برکینا فاسو میں جو ایک وقت بہت پرامن ملک تھا، 2015 سے یہاں بدامنی پھیل رہی ہے۔ پچھلے چار برسوں میں دہشتگردوں کے حملوں میں کم از کم 700 افراد ہلاک اور پانچ لاکھ ساٹھ ہزار لوگ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے