‏اسلاف گزیدہ

‏اسٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ، ‘اگر آگے بڑھنا چاہتے ہو تو اپنے قدموں کی چاپ اور ان سے اُڑتی دھول پر دھیان دینے کے بجائے اپنے سر پر جگمگاتے ان گنت ستاروں کو دیکھنا، یہ ہمیشہ تمہیں تلاش، جستجو اور کھوج کی طرف مائل کریں گے۔

‏غالب نے تو یاد ماضی کو عذاب ، شاید کسی ناکام معاشقہ کی بری یاد کے ضمن میں کہا تھا مگر ہمارے لیے ہمارا تابناک ماضی عذاب بن گیا یا بنادیا گیا ہماری نظر ہاکنگ کے قول زریں کے برعکس ہمیشہ پیروں کی دھول پر ہی رہی ، ہم اپنے تابناک ماضی میں ایسے غلطاں و پیچاں رہا کیے کہ اپنے حال اور فکرِ مستقبل سے بلکل ہی بے نیاز ہوگئے۔

‏میدان سائنس کا ہو سیاست کا طب کا یا دیگر علوم کا ہماری اکثریت عام طور پر عہد رفتہ کہ زعم میں ہی مبتلا نظر آتی ہے آپ طرز حکمرانی کی بات کر لیجیے تو فلاحی مملکت کی پہلی مثال پندرہ سو سال پرانے دورِ حکمرانی سے دیکر ناک بچالی جاتی ہے کہ میاں یہ مثالیں مغرب کی مت دیا کرو گوروں نے یہ سب فلاح و بہبود کا سبق ہم مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ سے پڑھا ہے، آپ طب کی بات کیجیے تو بو علی سینا کا نام لیکر چھاتی فخر سے پھلا لیں گے اور بے جھجھک طب کی ساری ترقی کا تاج ایک ہزار سال پرانی تحقیق اور مسلم اطباء کو پہنا دیں گے۔

‏حد یہ ہے کہ ایسی ایسی مبالغہ آرائیاں سننے کو ملتی ہیں کہ بندہ نا ہنسے سکون نا روئے چین کی کیفیت میں مبتلا ہو کر سر پیٹ لے ایک صاحب کو غلط فہمی ہے کہ پہلا جنگی بحری بیڑہ امیر معاویہ نے بنایا اس سے پہلے جنگی بحری بیڑوں کا کوئی وجود ہی نا تھا، پہلا مزائیل یا راکٹ ٹیپو سلطان نے بنایا پہلا سراغ رساں محکمہ صلاح الدین ایوبی نے ترتیب دیا اور اس طرح کی کئی مثالیں متفرق مباحث میں آپ نے بھی سن رکھی ہوں گی اور بعض اوقات خود بھی فخر کے باعث سینہ پر قمیض کو تنگ پایا ہوگا۔

‏اب بندہ پوچھے کہ بھائی علم کی تاریخ بھی کیا فقط ہزار سال پرانی ہے ، کیا بو علی سینا رازی جابر نے یہ علم بنا کسی کی تحقیقِ علمی سے متاثر ہوئے فقط تخیل کی بنیاد پر حاصل کر لیا تھا یا ان موضوعات پر پہلے بھی اقوام عالم کے صاحب علم لوگوں نے کوئی کام کر رکھا تھا ایک زرا تعلیم یافتہ آدمی کو بھی یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ علم کا معاملہ سدا چراغ سے چراغ جلنے جیسا رہا اور علم کی ترقی کی یہی ایک صورت ہے جو ہمیشہ برقرار رہے گی۔

‏ہم ہمیشہ حال اور مستقبل کے چلینجز کا سامنا کرنے کہ بجائے قدیم تر ماضی کے دھندلکوں میں مبتلا رہے نتیجتاً ‏ہم ہی تمام علوم کے ابا جان ہیں” کے مغالطے میں مبتلا پڑے رہے، ‏ہماری حالت اس شخص جیسی ہے جو قدم آگے بڑھا رہا ہو لیکن پیچھے دیکھتا ہوا جارہا ہو وہ جلد یا بدیر کسی گڑھے میں گر جائے گا۔

‏تابناک ماضی کے زعم نے ہمارے اندر فخر بیجا کو فروغ دیا ہم اسلاف کی علمی عظمت کا ڈھنڈورا پیٹنے میں ایسے مصروف ہوۓ خبر ہی نا رہی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گی، ہم بس اپنی ہزار سال پرانی علمی خدمات پر ہی اکڑتے پھرا کیے اور اپنے بچوں کو یہ بتاتے رہے کہ مغرب کی ساری ترقی کے پیچھے ہمارے اسلاف کی ذہانت اور تحقیق کارفرما ہے۔

‏ہمیں جدت سے نفرت ہے میں نے اپنے سے پہلی والی نسل کو پچاس ساٹھ کی دہائی میں بننے والی گاڑیوں کی مظبوطی کے گیت گاتے اور پچاس سال پہلے بننے والے گیتوں کے سدا بہار ہونے کے عشق میں مبتلا پایا اور پھر اس بیماری کو اپنی نسل میں منتقل ہوتے دیکھا، ہمارے یہاں کسی بھی جدید چیز کو مسترد کرنے اور قدیم کے عشق میں مبتلا رہنے کو کلاسیک ذوق کی اولین نشانی سمجھا جاتا ہے۔

‏صد شکر کہ رائٹ برادران ہم میں سے نا ہوئے ورنہ ہم آج بھی انکے بنائے ہوئے جہاز کے ہیکل پر جھنڈے باندھ کر انکا عرس منایا کرتے اور اپنے بچوں کو بتایا کرتے کے بیٹا یہ تھا اصلی جہاز اہل مغرب والا تو اسکا چربہ ہے، خوش قسمتی سے ہماری نئی نسل کپڑوں جوتوں گانوں گاڑیوں اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی حد تک تو جدت پسند واقع ہوئی ہے اہم یہ ہے کہ ماضی کے دھندلکوں سے باہر آتی ہوئی اس نسل کو سہی راہ راہ دکھائی جاۓ سوال اور سوال اٹھانے کی اہمیت اور اسلاف پرستی سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اگلی نسل ہمیں ضرور ایک اور جابر ایک اورابن سینا ایک اور ابن رشد یا البیرونی دے پائے گی۔؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے