جب جج بھی ایسا کریں تو

پاکستان میں زیادہ تر یہ بحث دو طبقات کے گرد گھومتی ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے گرد۔ کچھ لوگ ایک کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں اور کچھ دوسرے کو۔

زیادہ تر کشمکش بھی اِن دونوں کے مابین ہی نظر آتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اِن دونوں کی ذمہ داری بھی نسبتاً زیادہ ہے لیکن کیا سب برائیوں کے ذمہ دار یہی دو ادارے ہیں؟ نہیں۔ ہرگز نہیں۔

کیا یہاں کا استاد مثالی ہے؟ کیا یہاں کا عالم مذہب فروش نہیں؟ کیا یہاں کا صحافی سچ بولتا اور لکھتا ہے؟ کیا یہاں کا کاروباری دو نمبری نہیں کرتا؟ کیا یہاں کی پولیس قانون شکن نہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا یہاں کی عدالت میں انصاف بکتا نہیں؟

حالیہ قومی بحران کو دیکھ لیجئے۔ اس کے لئے یا تو نواز شریف اور عمران خان کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے یا پھر اسٹیبلشمنٹ کو لیکن عدلیہ کے سرخیلوں کا نام کوئی نہیں لیتا۔

بلاشبہ میاں نواز شریف ایک کینہ پرور انسان ہیں اور وہ پرویز مشرف کے خلاف غصے کو دل سے نہیں نکال سکے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو اس طرف ان ججوں نے بھی دھکیلا جنہوں نے خود ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔

اس اقدام سے اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی مخاصمت کا آغاز ہوا لیکن پھر وہ ججز نہ قانون کے ساتھ کھڑے رہ سکے اور نہ میاں نواز شریف کے ساتھ۔ جسٹس ثاقب نثار تو نواز شریف کے خلاف عمران خان سے بھی بڑے مہرے کے طور پر استعمال ہوئے۔

ان کی موجودگی میں نیب کو پولیٹیکل مینجمنٹ کے لئے انتقامی ادارے میں بدل دیا گیا لیکن وہ تماشہ دیکھتے یا پھر اس عمل کو شہہ دیتے رہے۔ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے جھگڑے میں، جو بنیادی طور پر بعض ججوں کی حرکتوں سے شروع ہوا تھا، میں میڈیا بھی رل گیا اور ثاقب نثار اس کو تحفظ کیا دیتے، اُلٹا میڈیا کو رسوا کرنے کے عمل میں مدد فراہم کرتے رہے۔

جب تک وہ چیف جسٹس رہے لوگوں کو اذیت دینے کے مرض میں مبتلا رہے۔ اُن کا بلڈ پریشر کسی کمزور کے سامنے کم نہیں ہوا اور کسی طاقتور کے آگے بلند نہ ہو سکا۔ وہ قومی اداروں کو لڑا کر اور سیاستدانوں کو نمونۂ عبرت بنا کر غائب ہو گئے اور آج تک غائب ہیں۔

نواز شریف وغیرہ کو تو سب یاد کررہے ہیں لیکن ملک کو پولرائزیشن کی اس دلدل میں دھکیلنے کے عمل کے اس بنیادی کردار کا کوئی نام نہیں لے رہا۔ ان کے بعد جسٹس آصف سعید کھوسہ کی باری آئی۔ وہ سیاستدانوں کے خلاف فیصلوں کی وجہ سے اپنے آپ کو ہیرو بنا چکے تھے۔

چیف جسٹس بننے کے بعد اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی تجویز دے کر انہوں نے ہم جیسوں کی بھی ہمدردیاں سمیٹیں۔ بطور جج اپنے گناہوں کے کفارے کے لئے انہوں نے ماڈل کورٹس کے قیام جیسے کچھ اچھے قدم بھی اُٹھائے۔ ثاقب نثار کی طرح سوموٹو کے ذریعے نظام حکومت کو مفلوج کرنے سے بھی گریز کیا اور مقدمات جلد نمٹانے کی بھی روایت ڈالی لیکن اپنے پیش رو کی طرح ایک لمحے کے لئے بھی اپنی ذات کے حصار سے نہیں نکل سکے۔

بلاشبہ ثاقب نثار کی طرح ان کا طریقہ بیہودہ نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے قومی وجود کو جو زخم دئیے وہ اولذکر کے دئیے گئے زخموں سے زیادہ گہرے تھے۔ وہ ہوشیار تھے لیکن اپنی ذات کیلئے ۔

اس لئے آخر میں دو ایسے قدم اٹھائے جن کے ذریعے انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام کردیالیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں فیصلوں کا محرک بھی ان کی ذات ہی تھی۔

میاں نواز شریف کو آئوٹ کرنے اور عمران خان کو اقتدار کی منزل تک پہنچانے میں ثاقب نثار کی طرح چونکہ آصف سعیدکھوسہ کے فیصلوں نے بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا، اس لئے وہ خان صاحب کو بہت اچھے لگتے تھے۔ چنانچہ خان صاحب کے ساتھ یہ منصوبہ بنایا گیا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے ان کو تین سال کی توسیع دی جائے ۔

پھر چونکہ آئینی ترمیم کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا تھا اس لئے اپوزیشن کو ساتھ ملانے کے لئے متعلقہ لوگوں کو ٹاسک دیا گیا۔ کہاجاتا ہے کہ میاں شہباز شریف نے اس مقصد کے لئے ہاں بھی کردی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے کو سید فخر امام اسمبلی کے فلور پر بھی لے آئے لیکن مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے آخری موقع پر بڑی چالبازی سے کام لیا۔

شریف فیملی کی طرف سے کھوسہ صاحب کو یہ باور کرایا گیا کہ وہ تو ترمیم کے لئے آمادہ ہیں لیکن اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہتی کہ ان کو توسیع ملے ۔ یہیں سے کھوسہ صاحب انقلابی بن گئے اور ایک طرف جنرل پرویز مشرف کے فیصلے کی نویدیں سنانے لگے تو دوسری طرف آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کو متنازعہ بنا دیا۔

حالانکہ یہ وہی تھے جنہوں نے کچھ ہی عرصہ قبل احتساب عدالت کے جج ارشد ملک سے متعلق ایسا فیصلہ دیا کہ جس کا مقصد ان کو احتساب سے بچانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اپنے لئے توسیع کے حصول میں ناکامی کے بعد غصہ اتارنے کیلئے آرمی چیف کی توسیع کو ایشو بناکر انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کئے۔

ایک طرف فوج جیسے ادارے کے سربراہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف سیاستدانوں کو آزمائش میں ڈال کر انہیں فوج کے ساتھ لڑانے کی سازش کی اور تیسری طرف خود کو بہادر ثابت کرنے کوشش کی۔ حالانکہ بہادر اتنے تھے کہ ریٹائر ہوتے ہی برطانیہ چلے گئے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے واقعی اس ملک کی خدمت کی ہے تو پھر وہ یہاں کے شہریوں سے آنکھیں کیوں نہیں ملا سکتے؟

معذرت خواہ ہوں کہ آج کے کالم میں اپنے مزاج کے خلاف قلم اُٹھایا ہے۔ اپنی عادت یہ رہی ہے کہ جانے والوں پر تبرا بھیجنے سے گریز کیا جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ بعض مناصب پر فائز لوگوں پر تنقید کی آئین اجازت نہیں دیتا۔

دوسرا ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ نے دل اتنا جلا دیا اور قومی وجود کو زخم اتنے لگائے کہ اپنی عادت کے برعکس ان کے کردار کا ایک عکس سامنے لانا ضروری ہوگیا تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے