برف کی تباہی ،انسانی المیہ کا خطرہ!!

پانچ دن سے برف باری جاری ہے ، مسجد کی چھت سے برف نہیں گر رہا ہے ، لوگ پریشان ہیں، تقریباً 10 فٹ برف ہے، شدید طوفانی ہوائوں کے ساتھ برف باری جاری ہے۔ یہ الفاظ 15 جنوری کو گائوں کے لوگوں کے تھے ۔گلگت بلتستان کے ضلع استور کی سرحدی وادی گریز (قمری، منی مرگ ، کلشئی )کے گائوں ناصر آباد کی مسجد کی 2011ء میں تعمیر نوشروع ہوئی اور فرش کے کچھ حصے کے سوا الحمد للہ مسجد مکمل ہوگئی ہے۔ جب سے مسجد کی چھت پر 10 فٹ برف کا سنا ہے سخت پریشانی ہے ، اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ۔

رواں برس نہ صرف گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں غالباً ایک صدی بعد ریکارڈ برف باری ہوئی ہے ، بلکہ برف باری کا سیزن بھی تقریباً سوا ماہ قبل شروع ہوا اور عملاً نظام دنیا مفلوج ہوگیا ہے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق شدید برف باری سے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان آزاد کشمیر کی وادی نیلم میں ہوا ہے ، جہاں پر 70 سے زائد افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی اور بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا ہے ۔ گلگت بلتستان کی وادی گریز (قمری ، منی مرگ ، کلشئی ) کی صورتحال بھی تشویشناک حد تک خراب ہے۔ اطلاعات کے مطابق تین گائوں (تھلی ، دودگئی اور نئی گون نمبر 2)میں برفانی تودوں سے 2 افراد جاں بحق اور 2 افراد زخمی ہوئے ہیں(سلطان ) ،جبکہ 15 مکانات کو شدید نقصان ہوا یا مکمل تباہ ہوئے ہیں اور مویشی کا نقصان اس کے علاوہ ہے۔نقصانات میں اضافے کا خدشہ ہے۔

ایک روز قبل(15 جنوری)کو اپنے گائوں رابطہ کیا تو لوگوں تکلیف کا اندازہ ہوا۔ اطلاعات کے مطابق 5 دن سے مسلسل برف باری جاری ہے اور لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں ۔ عملاً بے سرو سامانی کے عالم میں ہیں ، تین روز سے لوگ راتیں جاگ کر گزار رہے ہیں۔ اس دوران گھروں کی چھتوں سے برف گرانا اور شدید طوفانی برف باری سے اپنے آپ کو بچانا بھی ایک امتحان ہے۔ یہ معاملہ صرف ایک علاقے یا گائوں کا نہیں بلکہ پورے آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا ہے ۔

دوسری جانب 17 جنوری سے ملک کے مختلف علاقوں میں بارشوں کی تازہ لہر کی بازگشت ہے ۔ان حالات میں لوگوں کی ہنگامی طبی اور دیگر امداد ضروری ہے ۔ ملک بھر کے عوام کو اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے ۔ متاثر ہ علاقوں کے جو مکین شہروں میں ہیں وہ امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مصدقہ اطلاعات بھی فراہم کریں ۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کو فوری طور پر وادی نیلم ، وادی گریز(قمری، منی مرگ ، کلشئی ) اور دیگر متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ ہنگامی اقدام کرے ،کیونکہ مقامی حکومتوں کے پاس اتنے وسائل ہیں اور نہ ہی صلاحیت کہ وہ اس بڑے پیمانے پر لوگوں کی فوری امداد اور بحالی کے لئے اقدام کرسکیں ۔ان حالات میں حکمرانوں کی ذرا سی غفلت انسانی المیہ کو جنم دے سکتی ہے ۔

اطلاعات کے مطابق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں ایسے مقامات پر برفانی تودے گرے ہیں ، جن کے بارے میں تصور بھی نہیں تھا۔ اس لئے حالات کو سنجیدہ لیا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدام کئے جائیں ۔موجودہ بحرانی صورتحال میں پاکستانی میڈیا کا کردار عملاً نہ صرف سوالیہ نشان بلکہ شرمناک ہے ۔ اہل پاکستان سے اپیل ہے کہ ان مشکل حالات میں لوگوں کی مدد کے لئے آگے بڑھیں ،مستند اور اچھی شہرت والے سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کے ذریعہ متاثرین کی فوری امداد میں حصہ لیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے