کوئی خزانہ خوری اور ہوا خوری میں مصروف ہے اور میں ان ’’خوریوں‘‘ سے انسپائر ہو کر خبرخوری کی طرف مائل ہوں۔ خود کچھ سوچنے کی اذیت اور زحمت سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ خبروں، بیانوں پر تبصرہ کرکے گزر جائے۔سو آج یہی کچھ حاضر ہے۔
اخبار برفانی تودوں کی مچائی ہوئی تباہی کی تفصیلات سے بھرے ہیں۔ کوئی 100، کوئی 97، کوئی 93، کوئی 52، کوئی 106ہلاکتوں کی خبر دے رہا ہے اور میں مسلسل سوچ رہا ہوں کہ ہم اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد پر بھی متفق نہیں کہ یہی ہمارا اجتماعی مزاج ہے لیکن یہ ایک مختلف موضوع ہے۔
اصل بات یہ کہ انسانی جان تو ایک بھی بہت قیمتی ہوتی ہے لیکن اس کی قدر و قیمت کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ ’’منڈی‘‘ کس قسم کی ہے۔ کچھ ’’منڈیوں‘‘ میں انسانی جان واقعی بہت قیمتی ہوتی ہے جبکہ دنیا کی بیشتر منڈیوں میں یہ ٹکے ٹوکری بھی نہیں کہ انسان آج بھی ارتقا کی ابتدائی منزلوں سے گزر رہا ہے۔
سکینڈے نیویا کے وائی کنگز اور منگولیا کے تاتاری آج بھی مودیوں کی شکل میں موجود ہیں اور میں یہ سوچنے پر مجبور کہ برفانی تودے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں یا ’’انسانی تودے‘‘؟
انسانی تاریخ میں انسانوں نے جتنے انسانوں کی جان لی ہے، قدرتی آفات اس کے سامنے عشر عشیر بھی نہیں۔ صرف دو عدد ورلڈ وارز کا حساب لگا لیں تو اشرف المخلوقات کی آدم خوری سے خوف آنے لگتا ہے۔
مسئلہ صرف قدیم و جدید ہتھیاروں کے وحشیانہ استعمال تک محدود نہیں، ہزاروں قسم کی مہذب وارداتوں تک لامحدود ہے ورنہ دنیا بھر کی بیشتر دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ممکن ہی نہ ہوتا لیکن یہ ’’فری مارکیٹ اکانومی‘‘ کا دور ہے جسے ایک مصرع میں یوں سمویا جا سکتا ہے۔
’’جو بڑھ کر خود اٹھائے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے‘‘یا….’’جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کی ہے‘‘دنیا کو دو چیزوں نے برباد کیااول ’’کثرتِ زر‘‘دوم’’قلتِ زر‘‘
ایک طرف بھوک دوسری طرف بلا کی بدہضمی… اشرف المخلوقات چکی کے ان دو پاٹوں میں پس رہی ہے جس کے پیچھے صرف ایک اصول ہی کارفرما ہے یعنی ’’سروائیول آف دی فٹسٹ‘‘ جس سے متاثر ہو کر اقبال نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی…
’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘لیکن بس بھئی یہ بک بک یہیں ختم دوسرا موضوع ہے عمران خان کا بیان۔
عمران خان کی چند نایاب قسم کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ لفظ نہیں چباتا، لگی لپٹی رکھے بغیر دل کی بات زبان پر لے آتا ہے۔
نواز شریف کی ہوٹل میں ’’ہوا خوری‘‘ والی تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے اس نے کہا’’یہ سب فراڈیے ہیں‘‘چلو عمران کی کوئی ذاتی دشمنی ہو گی اور کچھ لوگ بغض بھرے بھی ہوں گےخلائی مخلوق بھی انہیں دکھائی دیتی ہو گی لیکن ریمنڈ بیکر سے لیکر ڈیوڈ روز تک کو ان سے کیا کد، بیر یا دشمنی؟
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان پر بڑے بڑے فراڈوں کے الزام لگائے لیکن مجال ہے کہ ان میں سے کسی ایک نے ان میں سے کسی ایک کو کسی عدالت میں گھسیٹا ہو، تو آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
مدتوں سے گاہے گاہے لکھا کہ اگر کوئی اس ملک میں کچھ بھی نہ کرتا، تنکا بھی نہ توڑتا تو یہ ملک اس حال کو نہ پہنچتا بشرطیکہ اسے تین شفٹوں میں دونوں ہاتھوں سے لوٹا نہ گیا ہوتا۔
اس ملک کو اس کے حال اور لوگوں پر چھوڑ دیتے تو بھلے کوئی توپ نہ چلتی لیکن اس طرح کنگال ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن ڈھٹائی اور کمال دیکھو کہ تقریباً پورے کا پورا ’’قبیلہ مفروریہ‘‘ لندن میں موجود بلے لٹ رہا ہے۔
ان ماہرینِ فن کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ کچھ بغیر اجازت فرار ہو گئے، کچھ باقاعدہ ’’قانونی‘‘ طور پر تشریف لے گئے… باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں کہ کل کلاں حیات کا ماحول سازگار ہوتے ہی پھر حملہ آور ہو کر ساری کسریں نکال لیں گے۔
’’قبیلہ مفروریہ‘‘ کے ایک معزز رکن کی کوٹھی کی نیلامی کا اشتہار جاری ہو چکا، 28جنوری کو نیلامی کی بولی 18کروڑ سے شروع ہو گی لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ لوگ نیلامی میں حصہ لینے سے گریز کریں گے کہ اگر یہ لوگ ماضی میں جلاوطنی کے بعد واپس آکر اقتدار پر قابض ہو کر اپنی تمام تر ریکوریاں یقینی بنا سکتے ہیں تو مستقبل میں بھی ایکشن ری پلے ہو سکتا ہے تو خوامخواہ پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے۔
اصولاً تو ہونا یہ چاہئے کہ ’’مٹھ رکھو یا منطقی انجام تک پہنچا کر دم لو‘‘ لیکن ایک ایسا معاشرہ جہاں دودھ سے لیکر بیسن تک اور شہد سے لیکر مرچوں تک کوئی شے خالص نہ ہو، جمہوریت میں بھی ملاوٹ ہو اور آمریت بھی کھوٹ کا شہکار ہو…
وہاں احتساب کیسے خالص ہو سکتا ہے؟آخر پہ سلام ہے عالی مقام مہاتیر محمد پر جو تمام تر پابندیوں کے باوجود بھارتی پالیسیوں کے خلاف اپنے موقف پر قائم ہیں۔
’’جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم‘‘ڈاکٹر مہاتیر کہتے ہیں کہ وہ تمام تر مالی مشکلات کے باوجود غلط باتوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔اور آخری خبر یہ کہ کچھ ن لیگیے آرمی ترمیمی بل کے حوالہ سے اپنی ’’مفرور‘‘ اور ’’مجبوراً موجود‘‘ قیادت کا دفاع کرتے ہوئے دراصل انہیں بری طرح رسوا کر رہے ہیں۔ واقعی بے وقوف دوست سے دانا دشمن کہیں بہتر ہوتا ہے۔’’ہوئے تم دوست جس کے…‘‘