قصہ میز پر رکھے بوٹ کا۔۔۔

[pullquote]اصلی منظرنامہ[/pullquote]

نظریں شاہراہِ دستور پر جمی ہیں۔ سپریم کورٹ کا دروازہ ایک عام شہری ریاض حنیف راہی نے کھٹکھٹایا ہے۔ یہ شخص سمجھتا ہے کہ ملک کے سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع خلافِ ضابطہ ہے۔ عدالت سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کو عبوری طور پر روکنے کا حکم صادر کرتی ہے۔ دوسرے روز کمرہ عدالت صحافیوں، اینکروں اور وکیلوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ حکومت کی نالائق ٹیم غلطی پرغلطی کئے جاتی ہے اور عدالت غلطی درست کرنے کیلئے ایک کے بعد ایک موقع دیتی ہے۔ ریمارکس سے لگتا ہے کہ ملک کے سب سے طاقتور ادارے کو رسوا کرنے کی ٹھان لی گئی ہے۔ تیسرے روز بھی کمرہء عدالت میں سراسیمگی طاری ہے۔ معمول کے مطابق موجود رپورٹرز کے ساتھ ساتھ بارشوں کے موسم میں نکل آنے والے مینڈک بھی ٹرا رہے ہیں۔ ہر کوئی چہء مگوئیوں میں مصروف ہے۔ نتیجہ کیا ہوگا،، تکے لگائے جارہے ہیں۔ لیکن پھر نظریہء ضرورت کا سیلاب منفی ریمارکس کو بہا لے جاتا ہے۔ اور فیصلہ آتا ہے کہ فیصلہ کوئی اور کرے۔ گیند اب پارلیمنٹ کے کورٹ میں ہے۔

[pullquote]ایک اور منظرنامہ[/pullquote]

ایک سیاسی جماعت کا تاحیات قائد اپنے لیئے تاحیات نااہلی کی سند لئے جی ٹی روڈ سے لاہور روانہ ہوتا ہے۔ جگہ جگہ پڑاو کے دوران یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ فوج الیکشن چور ہے۔ "ووٹ کو عزت دو”، اس نعرے کو ایک جذباتی طرز لگا کر گایا گیا ہے۔ یہ گانا اس سفر کے دوران اس تواتر سے بجایا جاتا ہے کہ ہم خیال دانشوروں کو ازبر ہوجاتا ہے۔ پٹواری رقص میں مصروف ہیں،، آخر کو رقص تو زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔ یوتھیوں اور پٹواریوں کے درمیان سماجی رابطے کے میدانوں میں گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ معاشرے میں دو متضاد فکری قطب موجود ہونا عین فطری ہے۔ مگر یہ لڑائی اب اس خطے کی اخلاقی قدروں کو نگلنے کے درپے ہے۔ سیاسی اختلاف کے اظہار کیلئے گالم گلوچ ہی اب وطیرہ ہے۔ حتٰی کہ ایک ٹیم دوسری ٹیم کو نیچا دکھانے کیلئے ‘رنڈی ان منڈی’ یعنی "ہور ان دی مارکیٹ” کا ہیش ٹیگ تک جینریٹ کردیتی ہے۔ یہ نظریہ وظریہ تو بہرحال کچھ نہیں ہوتا۔ "ووٹ کو عزت دو” کے دموی لوجین، یعنی خون کے جھلی دار زرات، جنہیں انگریزی میں پلیٹ لیٹس کہا جاتا ہے، وہ ایسے گرتے ہیں کہ ایسے تو اپنی کراچی اسٹاک ایکسچینج بھی کبھی نہ گری ہوگی۔ 19 نومبر کی صبح "ووٹ کو عزت دو” کالے رنگ کا ٹو پیس پہن کر قطر ایئر ویز کی ہوائی بیمار گاڑی میں سوار ہوکر بادلوں میں گم ہوجاتا ہے۔

[pullquote]ایک اور اصلی منظرنامہ[/pullquote]

بس کچھ یوں ہے کہ جیسے کسی کوٹھے پر رئیسِ شہر کی آمد ہو۔ نائیکہ طوائفوں کو پہلے ہی مطلع کردیتی ہے۔ نوجوان طوائفیں اداوں کے جلووں سے رام کرتی ہیں جبکہ ڈھلتی عمر کی میک اپ میں لدی پھندی طوائفوں کو نظرِ کرم کیلئے کچھ ایکسٹرا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ خیر، یہ کوٹھے اور طوائف کا قصہ چھوڑیں،بات ہو رہی تھی کہ سپریم کورٹ نے گیند پارلیمنٹ کے کورٹ میں پھینک دی۔ منظر کچھ یوں ہے کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز۔ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے والے، وہ ووٹ کو عزت دلوانے والے، اور وہ ٹاک شوز میں بوٹ میز پر رکھنے والے۔ اہم قانون سازی سالوں تک لٹکا کے رکھنے والی پارلیمنٹ سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کا بل پاس کرنے میں چند منٹ ہی لگاتی ہے۔

[pullquote]فرضی منظرنامہ[/pullquote]

رات کا پچھلا پہر، کمرے میں چھایا ملجگا اندھیرا، کونے میں ٹمٹماتی شمع، چوں چوں کرتی آرام کرسی، سگار سے نکلے دھوئیں کے مرغولوں سے دیوار پر نقشین ہیولوں کا رقص، ادھ کھلی کھڑکی سے آتی یخ بستہ ہوا، آتش دان میں جلتی لکڑی کی آواز، ٹیبل پر چھڑی کے قریب ہی پڑا گراموفون، اچانک ریکارڈ بجنے لگتا ہے، بیک گراونڈ میں گلوکارہ سملیٰ آغا کی آواز، قتیل شفائی کا فلمی نغمہ، موہے آئی نہ جگ سے لاج، میں اتنا زور سے ناچی آج، کہ گھنگرو ٹوٹ گئے ۔ آرام کرسی پر جھولتے شخص کے چہرے پر دھوئیں کے ناچتے بادلوں میں چند شناسا سیاسی چہرے دیکھ کر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔
ختم شد

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے