لیبیا میں خون ریزی

جب خلیفہ حفتر لیبیا واپس آئے توانہوں نے اپناقیام ملک کے مشرقی حصے میں کیا اورانہوں نے جنگ سے تباہ حال ملک لیبیا سے تیل کی برآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات لیبیا کی سب سے اہم برآمدات ہیں۔یوں تیل کی برآمد پر پابندی سے لیبیاکا سب سے اہم آمدنی کا ذریعہ بند ہوگیا ہے۔اس سے عوام کے مصائب میں مزید اضافہ ہو چکا اور یہ اقدام ترکی کی طرف سے حفتر کے مخالف فائز السراج کو تقویت پہنچانے کے جواب میں کیا گیا ہے‘ کیونکہ فائز السراج کی حکومت کو اقوام متحدہ نے تسلیم کر رکھا ہے۔

شمالی افریقہ کا تیل سے مالا مال ملک لیبیا باہمی حریفوں کی خانہ جنگی کا شکار ہے اور یہ خانہ جنگی لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد سے ہورہی ہے‘ جس میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ لیبیا کی خانہ جنگی کی 2014ء کی لڑائی مئی اور جولائی میں لڑی گئی ۔ جب مغربی ممالک نے مارچ میں لیبیا میں مداخلت کی تو ان کا پہلا ہدف بن غازی تھا۔ 11 ستمبر 2012ء کے واقعات‘ جنہوں نے عرب موسم بہار کو عرب موسم سرما میں بدل دیا اور لیبیا میں ایک بار پھر تاریخ کا رخ بدلا۔

دریں اثناء امریکی قونصل خانے پر شدت پسندوں کا حملہ ہوا‘جس نے لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر جے کے ساتھ سٹیونسن اور اس شہر میں تین امریکی ہلاک ہوئے۔بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر قبضہ اور سفیر کا قتل ایک اہم موڑ تھا ‘جہاں القاعدہ بھی اپنا سراٹھانے لگی‘ پھر اخوان المسلمون کی طرف اس کو القاعدہ سے جوڑنے کے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوا۔الزام لگایا جاتا ہے کہ لیبیا میں القاعدہ کے عروج کی منصوبہ بندی کچھ خلیجی ممالک نے کی تھی ‘لیکن انہوں نے اخوان المسلمین کے لیے ایک جال قائم کرنے اور اس کا الزام قطر پر ڈالنے میں جلدی کی۔ لیبیا کے القاعدہ‘ انصار الشریعہ نے‘ اتپریرک کی حیثیت سے اپنا کام کامیابی کے ساتھ مکمل کیا‘ نیز دہشت گرد وں نے کچھ اپوزیشن گروپوں میں دراندازی کی اور قذافی مخالفین کو آپس میں لڑنے کا راستہ صاف کردیا۔

مارچ 2011ء میں فرانسیسی دانشوروں کی ایک متنازع شخصیت‘ فلسفی ‘ مصنف اوردانشور برنارڈ ہنری لاوی جو پوری دنیا کے بہت دلچسپ سیاسی روابط رکھتے ہیں‘ بن غازی گئے اور قذافی مخالفین سے ملاقات کی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ کیا نئی خانہ جنگی کا آغاز ہونے جا رہا ہے؟ تو انہوں نے کہا ”یہ انسانی حقوق کی بات ہے‘ تاکہ قتل عام کو روکا جاسکے‘ لیکن میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ یہودی دیکھیں اور وہ آزادی پسندہوتے ہوئے آمریت کے خلاف دفاع کرتے ہوئے منظم ہوں‘مسلمان یہ دیکھیں کہ ایک فرانسیسی‘ ایک مغربی اور یہودی‘ ان کے شانہ بشانہ ہوسکتے ہیں‘‘۔جب برنارڈہنری لاوی‘ بن غازی سے پیرس واپس گیاتو اس نے فوری طور پر فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی سے ملاقات کی اور کہا کہ قذافی کا تختہ الٹ دینا ہی لیبیا کا واحد حل ہے۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ سرکوزی اور لاوی‘ دو مختلف خیالات کی شخصیت تھیں مگر‘اس ایک بات پر دونوں نے اتفاق کیا اوریوں ولاوی اچانک سرکوزی کا ایلچی بن گیا۔ لاوی نے لیبیا کی حزب ِ اختلاف کو اس وقت کے امریکی باشندوں کے ساتھ بٹھایا۔ اس وقت کی امریکی سیکرٹری خارجہ ہلیری کلنٹن‘ اور صدر اوبامہ ابھی بھی ہچکچا رہے تھے‘ لیکن کلنٹن نے جلد ہی صورت ِ حال کو سمجھا اور انہیں ایک صفحے پر لانے کی کوشش کی۔ عرب بہار نے لیبیا کو نشانہ بنایا تو پہلے یہاں احتجاج شروع ہوا۔در حقیقت لیبیا میں نیٹو کی مداخلت کا منصوبہ جامع پلان سے شروع نہیں ہوا تھا۔

قذافی نے اپنے فوجیوں کو حملہ کرنے کا حکم دیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ ”لیبیا کے شہروں کو گھرگھر تلاشی لے کر صاف کیا جائے اور اس وقت کے صدر بارک اوبامہ مداخلت سے گریزاں تھے۔ بعد میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی صدارت کے دوران ان کی بدترین غلطی شایداس معاملے میں ناکام منصوبہ بندی تھی ‘‘۔

جب قذافی نے بن غازی میں حزب ِاختلاف کے تعاقب میں بڑا قافلہ روانہ کیا تو فرانسیسی طیاروں نے اپنی بمباری کا آغازکر دیا تھا‘ جس کے فوراً بعد ہی برطانیہ اور امریکہ نے اس کی پیروی کرتے ہوئے چڑھائی کر دی۔ کچھ مہمات بحیرہ ٔروم سے شروع کی گئیں۔ اس اتحاد کی مہمات سات ماہ تک جاری رہیں۔ لاوی اس مداخلت سے کافی خوش تھے۔ اس نے اس وقت کہاتھا کہ ”جہاں تک میرااس مہم سے تعلق ہے‘ یہ ایک نیٹو مشن تھا‘جو ہونا چاہیے تھا‘‘۔اپنی دستاویزی فلم اوبر آف دی ٹبرک میں‘ اس بارے میں تفصیل سے بتایا کہ اس نے کس طرح ایک صدر کو نیٹو کی مداخلت اور امریکی سلامتی کونسل کی 1973ء کی قرارداد اور بائیں بازو کی حیثیت سے اپنے کردار پر قائل کیا؛ اگرچہ فرانس میں ہر کوئی لیبیا کی مداخلت میں اس کے گیم چینجر کے کردار کو جانتا ہے‘ لیکن دنیا اس سے واقف نہیں اور نہ ہی اس سے آگاہ ہے۔

ایفرانسوا اولاند‘ جو مارچ 2012ء میں فرانس کے صدر کے طور پر منتخب ہوئے ‘ان کے بارے میںقیاس آرائیاں جاری تھیں کہ وہ پچھلے صدر کی طرح عسکریت پسند مصنف‘ لاوی کی بات نہیں مانیں گے‘ لیکن لاوی کی میراث نے مغربی ممالک کو شام کے بارے میں اپنا خیال بدلنے پر مجبور کردیا اوراس نے بشارالاسد کو ختم کرنے پر اختلاف کیا‘اس نے روس کے لیے اسد کو کھلی حمایت دینے کے عمل کو بھی آسان بنا دیا۔

یہ وہ کہانی ہے‘ جس کے بعد حفترنے خود کو ”لیبیا کا نجات دہندہ‘‘قرار دیا۔ وہ اس مشن پر گامزن ہوا اور وہ بن غازی چلا گیا۔فرانس کے موجودہ صدر ایمانوئل میکرون کے حامی لاوی پیچھے ہٹ چکا ‘لیکن تاریخ ِلیبیا میں ہونے والے خونریزی میں ان کے کردار کو کبھی نہیں بھولے گی۔ حالیہ عرصے میں حفتر کی فورسز نے طرابلس میںفائز السراج کی فورسز پر حملہ بھی کیا؛ اگرچہ فائز السراج کی حکومت اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت ہے‘ لیکن اس کے بعض طاقتور حلیف الگ ہوکر حفتر کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں‘ جبکہ بین الاقوامی طاقتیں ”پراکسی وار‘‘ میں مصروف ہیں اور ان سب کی نگاہیں لیبیا کے تیل کے ذخائر پر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے