خانہ جنگی کے خطرات

آج خریداری کیلئے اسلام آباد کی سبزی منڈی گیا ۔چالیس سال کا ریڑھی بردار پٹھان باتیں کرتے ہوئے سچ مچ رو پڑا ۔بتانے لگا دن کے دو بج چکے ہیں صرف سو روپیہ کمائے ہیں اور رات کو 80 روپیہ ریڑھی کا کرایہ بھی دینا ہے ۔دس روز قبل گاوں سے آیا تھا سات دن تک مزدوری کیلئے بیٹھا رہا ایک ہفتے میں تین سو روپیہ کی۔مزدوری ملی ۔کسی نے بتایا منڈی میں بہت کام ہے تین دن سے کرایہ پر ریڑھی لے کر منڈی میں مزدوری کر رہا ہوں لیکن یہاں پر بھی مذدوری نہیں ہے ۔جہاں سوتا ہوں رات کے 30 روپیہ اسے دینا ہوتے ہیں ۔اپنے کھانے کیلئے پیسے نہیں بچتے پیچھے گھر بچوں کو کھانے کیلئے کیا بھیجوں ۔اب چوری ڈکیتی کروں گا ورنہ بچے بھوکے رہ جائیں گے ۔

اصل حکمرانوں نے ایک جعل ساز کو ملک پر مسلط نہیں کیا بلکہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ڈال دی ہے ۔ملک کے تمام شہروں میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح مستقبل کے خوفناک حالات کی خبر دے رہی ہے ۔ادارے بند ہو رہے ہیں ۔کاروبار ختم ہو رہے ہیں ۔

فراڈ اور جعل سازی کا یہ عالم ہے مہنگے ٹی بل عالمی مارکیٹ میں فروخت کئے ہیں اسحاق ڈار نے مختصر مدت کیلئے سات فیصد پر بانڈز بیچے تھے یہ تیرہ فیصد سے زیادہ شرح پر بیچ رہے ہیں ۔آئی ایف ایم کی شرائط پر مسلسل بجلی اور گیس مہنگی کر رہے ہیں کیونکہ نہ انہوں نے دوبارہ آنا ہے اور نہ یہ کوئی سیاسی جماعت ہیں ۔

یہ وارداتیے ہیں انہوں نے واردات ڈال دی ہے اور جو ان کو لے کر آئے ہیں انہیں اس بات کا غصہ تھا کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت کیوں کر لیا ۔کون سا آئین اور کون سا قانون ؟ ہم وہ بدنصیب ریاست ہیں جہاں جنرل ضیا ایسا منافق اور جنرل مشرف ایسا مکار اقتدار پر قبضے کے بعد ڈھرلے سے میڈیا کو کہتا ہے

“آئین کاغذ کا ٹکڑا ہے پھاڑ کر پھینک دیں “

ریاستیں آئین اور قانون کے مطابق چلتی ہیں جب آئین اور قانون کو کاغذ کا ٹکڑا سمجھا جائے تو ایک دن ایسا آتا ہے اسکی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے ۔

ہمیں خوف آ رہا ہے کہ آئین اور قانون کے ساتھ کھیلنے کی قیمت ادا کرنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔ابھی چوریاں اور ڈکیتیاں بڑھی رہی ہیں ۔اب خودکشیاں بڑھ رہی ہیں یہ سلسلہ اگر چلتا رہا تو لوگ خود بخود باہر نکل آئیں گے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے ۔

جن عہدیداروں نے ملک کو تبدیلی کے نام پر اس سطح پر پہنچا دیا ہے انہیں شائد گراس روٹ لیول سے خبریں نہیں مل رہیں ۔انہیں رپورٹیں نہیں دی جا رہیں کہ لوگوں کے کاروبار ختم ہو رہے ہیں ۔قوت خرید ٹوٹ گئی ہے ۔بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی کی سکت ختم ہو رہی ہے ۔

ریاستی وسائل پر قابض لوگوں کو ہر چیز میسر ہے اس لئے انہیں مہنگائی ،غربت اور بھوک کی خبر ہی نہیں ۔بے روزگاری کس طرح جان لیتی ہے انہیں اس کا پتہ ہی نہیں ۔جب حالات خراب ہوتے ہیں تو صرف چند ہی بھاگنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں باقی سب کو قیمت ادا کرنا ہوتی ہے ۔یہ تاریخ میں بار بار ہوا ہے لیکن تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔

کوئی معاشی پروگرام نہیں ۔کہیں پر بہتری کی امید نہیں ۔سرمایہ کار بھاگ چکے ہیں لیکن انہیں جن لوگوں نے مسلط کیا انکی تمام تر توجہ مدت ملازمت میں توسیع اور اپنے فیصلوں کی جوابدہی سے بچنا ہے

آج بال بچوں والے اور روزگار کمانے میں ناکام رہنے والے بے بسی سے رو پڑتے ہیں انکے آنسو صاف کرنے کی ضرورت ہے ورنہ کل دوسرے روئیں گے ۔

سوشل میڈیا ٹیموں کو متحرک کر کے عوام کو گمراہ کرنے کا جو کھیل پناما ڈرامہ سے شروع کیا گیا تھا وہ کھیل آج بھی جاری ہے ۔جعل ساز کی صدارت میں بیشتر اجلاس صرف میڈیائی ترجمانوں کے ہوتے ہیں کہ کس طرح عوام کو مزید احمق بنایا جائے اور مخالفین کے خلاف کیا نیا پروپیگنڈہ شروع کیا جائے ۔ملکی مسائل کیا ہیں اور انہیں کس طرح حل کرنا ہے یہ زمہ داری انہیں سونپ دی ہے جو کبھی گندم برامد کرتے ہیں اور کبھی برامد کرتے ہیں اربوں روپیہ کماتے ہیں ۔

جو کبھی کاشتکاروں سے گنا خریدنے میں تاخیر کرتے ہیں اور ستر روپیہ کلو چینی کی فروخت سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں ۔

غلیظ اور سفاک لوگوں کو ٹڈی دل کے حملے میں کاشتکاروں کی فصلیں تباہ ہونے کی فکر ہی نہیں اور نہ اس کے خاتمہ کیلئے کوئی اپریشن شروع کیا گیا ہے ۔ان ظالموں کو کوئی فکر نہیں کہ ٹریکٹر کی خریداری کم ہونے سے ٹریکٹر بنانے والی کمپنی نے پلانٹ بند کر دیا ۔

ان بے حس لوگوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں کہ کپاس کی فصل تباہ ہونےاور پیدوار کم ہونے سے اس سال غیر ملکی کسانوں کی کپاس خریدی جا رہی ہے ۔

تباہی کراس دی بورڈ آرہی ہے ایک طرف

صنعتی شعبہ تباہ ہوا تو دوسری طرف زرعی شعبہ بھی تباہ ہو رہا ہے۔دیہاتوں سے لوگ روزگار کیلئے شہروں کا رخ کر رہے ہیں اور شہروں میں تباہ ہوتی معیشت کی بھینٹ چڑھنے والے بے بسی کی تصویر بنے ملک سے ریٹائرمنٹ کے بعد یکے بعد دیگرے بھاگ جانے والے چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کو بددعائیں دے رہے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے