طاہرہ عبداللہ سے چند سوالات ؟

مجھے مرد سے اپنے حقوق نہیں چاہیئیں ، عورت اپنے جنم کیساتھ اپنے حقوق لیکر آئی ہے ۔۔ کشکول لیکر مرد سے اپنے حقوق نہیں مانگے ہم کبھی بھی Feminism ایک انقلابی سوچ ہے یوں کہہ لیجئے ایک نظریہ ہے جو سمجھتا ہے کہ عورت بھی انسان ہے ۔ اس میں برابری ،مساوات اور حقوق کا ذکر ہے۔ کہا گیا وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ میری عزت کسی مرد کے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ یہ سب طاہرہ عبداللہ کہہ رہی تھی ایک ٹی وی شو میں :

[pullquote]چند سوالات ذہن میں اٹھے جب انکی یہ گفتگو سنی [/pullquote]

اگر مردوں سے حقوق کا تقاضا نہیں ہے تو پھر Feminism کا راگ کیوں الاپا جا رہا ہے ؟
عورت مرد کیلئے ماں ، بہن، بیوی ہو سکتی ہے تو عزت کیوں نہیں ؟
ایک مرد یعنی رسول اللہ نے عورت کے بارے حقوق وضع کیے تو پھر مرد پر تنقید کیوں ؟

جب لڑکی کی پیدائش پر عورت کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا تب رسول اکرم نے اپنی بیٹی کو رحمت کہا پھر مرد پر اعتراض کیوں ؟
کیا عورت پر ظلم صرف مرد ہی کرتا ہے ؟

کتنی ہی عورتوں کی چالاکی سے دوسری عورتوں کے گھر اجڑ گئے ہیں ؟ کتنے ہی مردوں کی بربادی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ؟
آخر کیوں مرد ہی ہمیشہ غلط گردانا جاتا ہے ؟

مجھے یقین ہے طاہرہ عبداللہ صاحبہ نے یہ حدیث پڑھی ہوگی کہ ایک مرد کی غیرت کا اندازہ اسکی عورت کے لباس سے لگایا جاتا ہے
ایک اور حدیث بھی ہے کہ ایک عورت سے متعلق 3 مردوں سے سوال ہوگا ،، اسکے باپ ، بھائی اور شوہر سےاب اگر طاہرہ عبداللہ کو دیکھوں جو بہت اچھی لکھاری ہیں اور ایک زمانہ دیکھ رکھا ہے انھوں نے تو انکی بات ان احادیث کے متصادم نظر آتی ہے۔

ایک دوسری تحریر نظر سے گزری نوشی بٹ صاحبہ کی لکھتی ہیں یہ مکمل طور پہ پدرسری معاشرہ ہے۔ جس میں مرد کی مرضی اور حاکمیت پہ چلنا اور اس پہ سر تسلیم خم کرنا عورتوں کے لیے واجب بھی ہے اور ضروری بھی۔ جہاں پہ سر اٹھانے کی کوشش کی۔ اسے فورا کچلنے کی جلدی کی جاتی ہے۔ جیسے سانپ کو سر اٹھانے سے پہلے اس کا سر کچل کے مارنے کی جلدی ہوتی ہے،ہم اس معاشرے کی عورت کے حوالے سے سوچ سے تو پوری طرح آگاہ ہیں لیکن اب عورت کی معاشرے کے حوالے سے سوچ سے بھی آگاہ ہو رہے ہیں۔ عورت ڈرامہ لکھ کر معاشرہ میں سدھار پیدا کر سکتی ہے عورت بلاگز لکھ کر معاشرہ کو اپنی محرومیوں اور اپنے ساتھ ظلم و زیادتی بارے آگاہ کر سکتی۔ عورت سکرین کے ذریعے اپنے نظریات کا پرچار کر سکتی ہے ۔۔ حتی کہ آجکل سوشل میڈیا پر ایک نیا احتجاج شروع ہو گیا ہے کہ اسقاط حمل کے بارے میں ۔۔ شرٹ پر یہ الفاظ انگریزی حروف میں درج ہیں ۔

اسقاط حمل نارمل ہے ، اسقاط حمل ضروری ہے ، اسقاط حمل صحت ہے اور اسقاط حمل پرسنل ہے ، مطلب نجی معاملہ ہے۔
ایک طرف محرومیوں اور ظلم زیادتی کا پرچار ہے دوسری طرح اسقاط حمل کی پکار ہے۔

بقول ایک عورت کے بقول کوئی شک نہیں کہ کچھ خواتین موجود ہیں جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث ہیں مگر ان کی ریشو مردوں کی نسبت کم ہے اور چند ایسی خواتین کو مثال بنا کر باقی تمام خواتین کے مسائل میں اضافہ سرا سر زیادتی ہے،ایک طرف تو سمجھدار ترین خواتین معاشرہ کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ دوسری طرف یہی خواتین ایک دوسرے کے گھر اجاڑنے اور مردوں کو ڈھال بنا کر گھریلو جھگڑوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔۔ اور عورتوں کے شر سے بھی پناہ مانگی گئی ہے ۔۔ تفسیر ابن کیثر میں وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے، اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔

تحریر کا مقصد کسی کو غلط ثابت کرنا نہیں بس چند سوالات کے جوابات درکار تھے جو عورت سے پوچھے گئے ہیں۔ مذہب کا سہارا دو وجوہات کی بنا پر لیا گیا ہے ایک تو طاہرہ عبداللہ کی جانب سے وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ سے بات کی شروعات ہے دوسرا دین اسلام سے بہتر عورت کو حقوق کہیں اور حاصل نہیں ہیں۔ عورت ہمیشہ اپنے حقوق کی بات کرتے ہوئے مَردوں کیخلاف زہر افشانی کیوں کرتی ہے ؟

لیکن اس سب سے ہٹ کر ایک بات ضرور گوش گزار کرنا چاہوں گا ۔۔ مرد کیلئے عورت سب سے پہلے ماں پھر بہن ،بیوی اور پھر بیٹی کی صورت میں آتی ہے اور مرد ان چاروں کیلئے در بدر کی خاک چھانتا ہے ۔ انکی عزت کو اپنی عزت سمجھتا ہے انکے آرام و سکون کیلئے اپنا سکون برباد کرتا ہے اسلیے نہیں وہ مجبور ہے اس لیے کہ اسکی نگاہ میں ان سے زیادہ عزت و احترام اور اعتماد کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ اگر مرد عورت کی عزت نہیں کر سکتا تو وہ مرد کہلانے کے لائق نہیں ہے۔
بقول علامہ اقبال:
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے