‘زندگی تماشا’ اورخوشونت سنگھ کی اُداسی

معروف ہندوستانی صحافی و دانشور خوشونت سنگھ نے2003 میں شائع ہوئی اپنی کتاب the end of india کے دیباچے میں لکھا ہے:

” ہندو بنیاد پرستی کا جگن ناتھ عدم رواداری کے مندر اور اس کی یاترا سے نمودار ہوا ہے، اس کی راہ میں جو بھی آئے گا وہ اس کے بھاری پہیوں تلے روندا جائے گا – ہر مذھب کا بدترین دشمن وہ جنونی ہوتا ہے جو اس کی پیروی کا جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اور اپنے عقیدے کے ذاتی تصور کو دوسروں پر ٹھوسنے کی کوشش کرتا ہے ، فاشزم ہمارے ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے اس کا الزام ہم صرف خود ہی کو دے سکتے ہیں ہمی نے جنونیوں کو کسی احتجاج کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع دیا ، انہوں نے اپنی ناپسندیدہ کتابوں کو جلایا ، اپنے مخالف صحافیوں کو مارا پیٹا ، اپنی ناپسندیدہ فلمیں دکھانے والے سینماؤں کو جلایا ، انہوں نے منظور شدہ سکرپٹ کو فلمانے والوں کے آلات توڑ دیے ، تاریخ کی کتابوں کو اپنے نظریے کے مطابق ڈھالنے کے لیے ان کے متن میں تحریف کی ، وہ اپنے سے اختلاف کرنے والے ہر شخص سے گالی گلوچ کرتے ہیں – جبکہ ہم جوابی حملہ کرنے میں ناکام ہوئے ہیں کیونکہ ہم نے اپنی قوت مجتمع نہیں کی ، اپنے ملک کو ان جنونیوں کے ہاتھوں میں جانے دینے کا بروقت ادراک نہیں کیا اور اب ہم اپنی کوتاہیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ” –

اس کے علاوہ بھی کتاب میں ایسا بہت کچھ لکھا گیا ہے جو کسی معاشرے میں ہوئی توڑ پھوڑ کی وجہ ہو اور بعد میں نہ صرف معاشرتی اقدار کے خاتمے کا سبب بن رہا ہو بلکہ ریاست کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے –

خوشونت سنگھ کی2003 میں شائع ہوئی کتاب the end of india

کہیں بھی اختلاف رائے کا ہونا ایک قدرتی سی بات ہے مگر اگر اختلاف رائے جب کسی کی تضحیک کا سبب بننے لگے تو پھر اس سے نفرت جنم لیتی ہے جو اختلاف رائے رکھنے والوں کو تنزلی کی آخری حد تک پہنچا دیتی ہے جس کے بعد ٹکراو کا ہونا یقینی ہو جاتا ہے ، ٹکراو ہمیشہ تقسیم کی طرف لے کر جاتا ہے اور تقسیم کسی بھی معاشرے کی یقینی تباہی ہی ہو سکتی ہے –

ہمارا معاشرتی المیہ بھی یہ ہی رہا ہے کہ ہم ہمیشہ اختلاف رائے کو معاشرتی تقسیم تک لے جانا ہی اپنی اپنی دانست میں اپنی فتح سمجھتے ہیں – ہمارے ہاں مختلف معاملات میں پایا جانے والا اختلاف رائے اور اس سے ہوئی معاشرتی تباہی اور وجوہات پر بہت کچھ لکھا گیا اور مزید لکھا جا سکتا ہے ، مگر سردست میرا موضوع بحث نئی آنے والی سرمد کھوسٹ کی ڈاریکشن میں بنی فلم ” زندگی تماشہ ہے ” کا ٹریلر ہے.

فلم 24 جنوری کو سینما میں لگنی تھی جومذہبی جماعت تحریک لبیک کے اس اعترض پر کہ ” اس فلم میں جشن عید میلاد النبی کے کچھ ایسے حقیقی مناظر دکھائے گئے ہیں جنہیں ان کی اجازت کے بغیر اس فلم میں شامل کیا گیا اور ان مناظر کے آخر میں لبیک یا رسول اللہ کے لگتے نعرے کی آواز آ رہی ہے جس کا مقصد خاص طور پر تحریک لبیک کو ٹارگٹ کرنا تھا” کی وجہ سے تاحکم ثانی لگائے جانے سے روک دی گئی ہے اور معاملہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا گیا ہے ، اگرچہ سنسر بورڈ اسے دو بار پہلے ہی کلئیر کر چکا ہے – اس سے پہلے 2019 میں فلم جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ہونے والے عالمی فلم فیسٹیول میں پیش کیا گیا تھا جہاں اسے فلم فیسٹیول کے سب سے اعلیٰ فلمی ایوارڈ ‘کم جیسوئک’ ایوارڈ سے نوازا گیا-

فلم کا مرکزی کردار ایک عام لہوریا ہے جو پیشے کے لحاظ سے ایک پراپرٹی ایجنٹ اور شوقیہ طور پر ایک نعت خواں ہے – باقی کہانی میں وہ ہی سب کچھ دیکھایا گیا ہے جو ہمارے ہاں کے بظاہر نارمل نظر آتے انسان کی زندگی میں ہو سکتا ہے یا بہت ساروں کی زندگی میں ہے –

اب فلم پر اعتراض کرنے والوں کا بنیادی قانونی سوال تو ان کی مرضی کے بغیر ان کے جلوس کی عکس بندی تھا جو ان کی تحریک یا عقیدے کے لیے نقصان کا سبب بن سکتا ہے ، مگر منبر ومحراب سے اور سوشل میڈیا پر انہوں نے اسے دین اسلام کے خلاف فلم قرار دیتے ہوئے ایک نعت خواں ( یا یوں کہہ لیں کہ ایک مخصوص حلیے کے شخص) کو اسلام قرار دینے پوری کوشش کی جس کی وجہ سے ان کا ایک عام عقیدت مند و معتقد بالکل اسی طرح کے واہمے کا شکار ہو کر میدان عمل میں آنے کو تیار ہے جس پر چند دن پہلے ان کے بہت سے لوگوں پاکستان کے عدالتوں سے جرمانے اور قید کی سزا ہوئی – کیا ان کا عقیدہ اتنا کمزور ہے کہ سینکڑوں ضخیم کتابوں ، استادوں اور ماننے والوں کی موجودگی میں بھی اسے صرف دو گھنٹے کی فلم لے ڈوبے گی ؟

ہمارے ہاں عام آدمی کا اسلام خواص کے اسلام سے پہلے ہی الگ ہے مگر اب یوں ہر بات پر اپنے ذاتی سیاسی و جماعتی مقاصد کے لیے مذھب کا استعمال مستقبل میں کتنا فائدہ مند ہو اللہ پاک بہتر جانتا ہے-

مخصوص حالات میں بچوں ( طالبعلموں) سے ہونے والی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات ، ہسپتالوں ، عدالتوں ، یونیورسٹیوں ، دفاتر ، ورکشاپوں غرض ہر اس جگہ جہاں انسان کچھ نہ کچھ کر رہا ہے میں رپورٹ ہوئے جنسی جرائم ہمارے سامنے ہیں. بطور معاشرہ ہم اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے مگر ہمیں انہی ایشوز پر سوال کرنے والے بھی قبول نہیں،ایسا کیوں ہے ؟

کیا ہم معاشرتی ایشوز پر دانستہ طور پر بات نہیں کرنا چاہتے ؟

کیا مسائل کا حل معاشرتی مسائل کی آگاہی سے حاصل ہو گا یا ان کی موجودگی کے باوجود ان کو کسی مخصوص حلیے کی وجہ سے مقدم جان کر چھپانے سے ؟

کیا خوشونت سنگھ نے اپنی کتاب the end of india کہیں ہمارے لیے ہی تو نہیں لکھی تھی ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے