یہ کابینہ ہے یا بختِ نگوں پر لام الف کی کہکشاں سجی ہے؟ میر نے کہا تھا : دلی کے نہ تھے کوچے ، اوراق مصور تھے ۔ رجال کار کے یہاں لشکر اترے پڑے ہیں اور ہر جنگجو زبان بے نیام لیے رزم گاہ میں ہے ، آدمی کس کس سورما کو داد دے؟ اہل دانش گرہ لگاتے ہیں : حزب اختلاف کہاں ہے؟ میرے جیسا طالب علم مگرسوچتا ہے اس بندوبست کو حزب اختلاف کی حاجت ہی کیا ؟ جس کشتہ ستم کی مانگ ایسے ستاروں سے روشن ہو اسے اب کسی حریف کی کیا ضرورت ۔ عمران خان کے لیے ان کے وزراء ہی کافی ہیں ۔
پاکستان کا خواب تو اقبال نے دیکھا ، نئے پاکستان کا خواب کس کی چشم فسوں ساز میں اترا تھا؟ شاید یہ جان ایلیا تھے:
محبت بری ہے ، بری ہے محبت
کہے جا رہے ہیں ، کیے جا رہے ہیں
عمران خان کی کہانی بھی بس اتنی سی ہے دو عشرے جس جس کو برا کہا ، اقتدار کے ایک سال میں ایک ایک کام کر دکھایا ۔ بس کہے جا رہے ہیں اور کیے جا رہے ہیں ۔ سر شام اقوال زریں سنائے جاتے ہیں ، صبح دم ڈی چوک کے یو ٹرن پر انہیں پامال کر دیا جاتا ہے۔ شورِ جنوں میں منادی ہے : یو ٹرن نہیں لیں گے تو بڑا لیڈر کیسے بنیں گے۔ نونہالان انقلاب کے حوصلے دیکھیے ، جہاں تھوڑا نادم ہونا واجب ہوتا ہے یہ وہاں بھی ’ می رقصم‘ ہوتے ہیں۔ کپتان خاں کے جلسے میں برسوں پہلے اعلان ہوا تھا : نچنے نوں دل کردا ۔ نیا پاکستان بن گیا لیکن نونہالان انقلاب کے پرانے شوق نہیں گئے۔ معلوم ہوتا ہے یہ رسم قبیلے میں ابتداء میں سے تھی۔ لوگوں کی جان لب پر آئی ہے ، یہ ساون کے شگوفوں کی طرح جھوم رہے ہیں : بس آپ نے گھبرانا نہیں۔
پانچ سال کی مدت پر تو یوں اصرار ہے جیسے یہ عدت ہو ۔ سوال مگر کار کردگی کا ہے ۔ اس باب میں بھی سوال یہ نہیں کہ تبدیلی کے نقوش کہاں ہیں۔ دست سوال پر تو بس اتنی سی معصومیت رکھی ہے کہ مہاراج کوئی ایک شعبہ جس میں آپ کی سمت درست ہو اور گمان کیا جا سکے اس سمت کے اختتام پر دہائیوں بعد بھی کبھی منزل کا کوئی سراغ مل جائے گا۔ یہ شکوہ نہیں کہ ستر سالوں کی الجھی ڈور ڈیڑھ سال میں کیوں نہ سلجھائی جا سکی، اندیشہ یہ ہے کہ ڈیڑھ سالوں میں جو کچھ الجھا دیا گیا وہ شاید ستر سالوں میں بھی نہ سلجھ پائے۔
معیشت ، سیاست ، سماج کوئی ایک گوشہ حیات بتا دیجیے جہاں آپ نے زخم کے ہر کوچے کو بازار نہ بنا دیا ہو۔ معیشت میں کوئی پالیسی ہوتی، کسی سمت کا تعین ہو تا اور مشکل فیصلوں کی تاریک سرنگ کے اختتام پر امید کا کوئی دیا رکھا ہوتا تو مہنگائی کا یہ عذاب بھی گوارا کر لیا جاتا۔ لیکن یہاں تو مہنگائی کا سونامی گناہ بے لذت کی طرح ہنستے بستے شہروں میں اترا ہے۔ قرض کے لیے کشکول بھی ویسے ہی پھیلا ہے لیکن مہنگائی کا آزار تھمنے میں نہیں آ رہا۔ ایسی نا اہل حکومت معلوم انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ تشریف لائی ہے۔ جی ہاں پہلی بار ، مرحبا، مرحبا۔
نا اہلی کی شمشیر ستم نیام میں ڈالی جا سکتی ہے لیکن جو زبان بکف ہوں ان کی تلواریں کون نیام میں ڈالے۔ کارکردگی کے بحران کا پھر کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے اور کہیں سے کوئی تاویل لا کر پیش کی جا سکتی ہے لیکن اس قافلہ انقلاب کی غنچہ دہنی کا کیا علاج۔ یہ کلام کرتے ہیں اور خلق خدا حیرت سے انگلی منہ میں داب لیتی ہے۔ زبان بکف ان جنگجو وں میں کس کس کا نام لیا جائے، یہاں تو لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند۔ جسے دیکھو زبان شمشیر کیے پھرتا ہے۔ قافلہ انقلاب کے نو رتنوں کے نام لیتے جائیے اور سر پیٹتے جائیے۔
ابھی جناب اظہار الحق کا فون آیا ، پوچھنے لگے پیپلز پارٹی میں اعتزاز ہیں ، رضا ربانی ہیں ، چودھری منظور ہیں ، ن لیگ میں احسن اقبال ہیں ، ظفر الحق ہیں ، میں ایک چیز لکھنے لگا ہوں ، مجھے تحریک انصاف کے دو چار شائستہ اطوار تعلیم یافتہ رہنماوں کے نام تو بتا دیجیے۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور ۔
چشمِ سیاہ کے گھائل تو دیکھے تھے ، شیریں کلامی کے بسمل پہلی دفعہ دیکھ رہے ہیں۔ جی ہاں پہلی مرتبہ، معلوم انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ، یہ ہوتی ہے تبدیلی ، یہ ہوتا ہے ویڑن۔ جس روز عمران کی دہلیز پر عافیت ہو ان کے اپنے مصاحب غنچہ دہن سے بحران نکال کر عمران کی چوکھٹ پر چھوڑ آتے ہیں کہ لیجیے صاحب ہم غم کشتوں کے ہوتے یہ فراغت کیسی؟
کوئی ایک دو ہوتے تو نام لیا جاتا ، یہاں تو ہر وزیر رشک عقیق تبدیلی ہے۔ سودا کی طبیعت کسی پر برہم ہوتی اور ہجو کہنے پر مائل ہوتی تو روایت ہے کہ آواز لگاتے : غنچے ذرا قلم دوات لانا۔ وزرائے کرام کی قلم دوات سے تو شاید ہی کبھی رہ و رسم رہی ہو مگر سر شام منادی ہوتی ہے : غنچے ذرا پریس کانفرنس بلانا۔ اور پھر وہی اردو کی دوسری کتاب ، وہی بلبل کا بچہ، ’’ ہم نے چھوڑنا کسی کو نہیں ، ہم نے لٹکا دینا ہے۔
دبستان ڈی چوک میں ہر دوسرا رہنما صاحب دیوان ہے۔ تازہ غزل مگر وزیر اعلی کے پی کے جناب محمود علی خان نے چھیڑی ہے۔ معصوم بچی درندگی کا شکار ہوئی ، سماج لہو رو رہا ہے اور قافلہ انقلاب کے فکری افلاس کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعلی سر محفل ، میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہتا ہے: بچی کے والدین خود بدلہ لے لیں ، مار ڈالیں اس کو۔ یہ ایک مہذب سماج کا وزیر اعلی ہے یا قدیم زمانوں کے وحشی قبیلوں کا کوئی سالار؟ لوگوں نے بدلے خود ہی لینے ہیں تو مٹی کے ان مادھووں کی کیا افادیت ہے جنہیں ازرہ تفنن وزیر اعلی وغیرہ کہا جاتا ہے۔
ہر درباری یہاں سرو لب شگوفہ ہے ، معلوم نہیں پڑتا ان میں سے ملک الشعراء کون ہے۔ اوج و موج کا اک آشوب ہے جس نے بستی کا رخ کر لیا ہے۔ سونامی اسم با مسمی ہو چکا۔ تبدیلی آ نہیں رہی ، تبدیلی آ گئی ہے۔
خلق خدا کی حسرتیں سراپا سوال ہیں : کب جائے گا عمران؟